جو کرن جو قتل ہوئی شعلہ خورشید بنی

380

خون میں نہایایحییٰ سنوار اللہ سامنے حاضر ہو گئے۔ اب ان کے بھائی محمد سنوارحماس کی قیادت کر یں گے۔ پہلے اسرائیلی ویڈیوز اور بیانات کے مطابق یحییٰ سنوار نے اپنے دو ساتھوں کے ہمراہ اسرائیل کی فوج سے سخت مقابلہ کیا اور 50 سے زائد عالمی کمانڈوزکو واصل ِ جہنم کیا اس دوران ان کو سر پر گولیاں لگیں اور بازو چھوٹے گولے کے وار سے ٹوٹ گیا اس بازو کو انہوں نے تار سے باندھ رکھا تھا اور بازو کے پاس سے خون بہہ رہا تھا لیکن انہوں نے اسرائیلی اور عالمی افواج سے مقابلہ جاری رکھا، شدید مزاحمت کی وجہ سے اسرائیلی فوج یحییٰ سنوار کو زندہ پکڑنے میں ناکام رہی، شدید زخمی ہونے کے باوجود کسی اسرائیلی یا عالمی کمانڈوز کی حمت بھی نہ ہوئی کہ وہ یحییٰ سنوار کو گرفتار کرنے کمرے کے اندر آتا جہاں وہ صوفے پر بیٹھے تھے اور سر سے پاؤ تک خون میں تر تھے۔ جس کی ویڈیوں اسرائیل نے جاری کی جس کو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان کا ایک ہاتھ جسم سے الگ ہوگیا تھا جس کو انہوں نے ایک تار سے باندھ رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے ایک ڈنڈے کے ذریعے ڈرون کو بھگانے میں کامیاب ہوئے اور شہید ہو گئے۔ قبل ازیں یہ کہا جارہا تھا وہ یرغمالیوں کے ساتھ سرنگ میں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اسرائیل کی بنائی ہوئی ویڈیوز نے یہ ثابت کر دیا وہ غزہ کے محاذ پر اسرائیلیوں کو واصل ِ جہنم کر رہے تھے۔ یحییٰ سنوار نے دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ مزاحمت میں زندگی ہے۔

اسرائیل نے پوری دنیا کو حکم دیا تھا کہ یحییٰ سنوار کو شہید کرنے کے لیے پورے عالم کی فوج فلسطین پہنچائی جائے اور ایسا ہی کیا گیا۔ امریکا کے لیے اسرائیل کا حکم بجا لانا ضروری تھا۔ عالم اسلام اور عالم کفر دونوں ہی اسرائیل کی مدد میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے ارد گرد رہنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ حماس کو ختم اور فلسطینیوں کو ہمیشہ کے مٹا دیا جائے۔

یحییٰ سنوار کی شہادت کے بارے میں اسرائیل اس مرتبہ ایک نئے رنگ سے کہانی کا پلاٹ تیار کرتے ہوئے بتایا رہا ہے کہ بدھ 16 اکتوبر 2024ء کے روز رفح کے تل السلطان علاقے میں گشت کر رہی تھی کہ انہیں تین عسکریت پسند دکھائی دیے۔ اسرائیلی فوج نے ان کا مقابلہ کر کے انہیں مار دیا۔ رات ہونے کی وجہ سے اسرائیلی فوج کو اس وقت تک لڑائی کے بارے میں کوئی غیر معمولی بات دکھائی نہیں دی اور فوجی جمعرات کی صبح جب ان لاشوں کا معائنہ کرنے پہنچے تو ان میں سے ایک شخص کی حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار سے بہت زیادہ مشابہت نظر آرہی تھی۔ کسی وجہ سے لاش تو وہاں سے نہیں ہٹائی گئی تاہم اس کی ایک انگلی کاٹ کر اسرائیل بھیجی گئی تاکہ جانچ کی جا سکے۔ بعد ازاں جگہ کو بند کرکے ان کی لاش کو بھی نکال کر اسرائیل لایا گیا۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہیگری کا کہنا ہے کہ ’فوجی اہلکاروں کو حماس کے رہنما کی موجودگی کا علم نہیں تھا لیکن وہ اس علاقے میں کارروائی جاری رکھے ہوئے تھے‘۔ یحییٰ سنوار حال ہی میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی ایران میں شہادت کے بعد حماس کے لیڈر بنے تھے۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے تین افراد کو ایک گھر سے دوسرے گھر میں بھاگتے ہوئے دیکھا۔ ان کا مقابلہ کیا گیا اور وہ تینوں ایک موقع پر الگ الگ ہوگئے۔ ان کے مطابق سنوار کے نام سے شناخت ہونے والے شخص کو اس وقت مارا گیا جب وہ اکیلے ایک عمارت میں داخل ہوئے۔ انہیں عمارت کے اندر ایک ڈرون کی مدد سے تلاش کرنے کے بعد مار دیا گیا۔

یحییٰ السنوار اسرائیل سے سمجھوتا نہ کرنے والی شخصیت تھے جنہوں نے اسرائیلی قید میں مسلسل 22 سال گزارے۔ ان کا جیل میں قید رہنے کا مجموعی عرصہ 26 برس بتایا جاتا ہے۔ اسرائیل یہ بتاتا رہا ہے کہ وہ یر غمالیوں کو ڈھال بنا رہے ہیں لیکن ان کی مقابلے میں شہادت سے یہ ثابت ہوگیا کہ سنوار کسی بھی یرغمالی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کر رہے تھے۔ ان کے بارے میں عالم اسلام کو شاید کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا لیکن اسرائیل اور عالم کفر یحییٰ سنوار کو شہید یا زندہ گرفتار کرنے کی کوشش 7 اکتوبر 2003ء سے کر رہے تھے لیکن یحییٰ سنوار شہید ہونے کی کو شش میں ہی کامیاب رہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، یورپی یونین کے فضائی آلات فلسطین کے کونے کونے میں گشت کر رہے تھے اور ایک سال سے دنیا بھر کے ماہر کمانڈوز بھی یحییٰ سنوار کو تلاش کرتے رہے اور جنگ میں موجود ہونے باوجود ہر ایک کی نظر سے اوجھل رہے۔

یحییٰ سنوار کی موت کی تصدیق اسرائیل نے جمعرات کی دوپہر کو کی۔ لیکن عالمی اطلاعات یہی ہیں کہ ان کو دو دن قبل شہید کیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یحییٰ سنوار کی شہادت سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے اس لیے یہودی خبردار رہیں کہ غزہ میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اگرچہ یحییٰ سنوار کو آپریشن کے دوران ہلاک کیا گیا تھا لیکن آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ وہ کئی ہفتوں سے ان علاقوں میں کام کر رہی تھی جہاں انٹیلی جنس نے ان کی موجودگی کا اشارہ دیا تھا۔ مختصر یہ کہ اسرائیلی افواج نے یحییٰ سنوار کو جنوبی شہر رفح تک محدود کر دیا تھا اور وہ آہستہ آہستہ انہیں پکڑنے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ سنوار کا قتل اسرائیل کے لیے ایک بڑا ہدف تھا جن کی شہادت سات اکتوبر 2023ء کے حملوں کے بعد طے تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کی شہادت کے بعد غزہ میں جنگ ختم ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں نیتن یاہو کا اداس چہرہ یہی بتا رہا ہے کہ ’جنگ جاری رہے گی‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ 101 یرغمالی حماس کے قبضے میں ہیں۔ ’یرغمالی خاندانوں سے نیتن یا ہو کا کہنا ہے کہ یہ جنگ میں ایک اہم لمحہ ہے۔ ہم اس وقت تک پوری قوت سے کام جاری رکھیں گے جب تک آپ کے اور ہمارے تمام پیارے، گھر نہیں آ جاتے۔

ویسے تو یہ جنگ ایک سال سے جاری ہے۔ ایرنی صدر ابراہیم رئیسی، اسماعیل ہنیہ، حسن نصراللہ اور یحییٰ سنوار کی شہادت سے خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ فلسطینیوں کی 72 سال کی جد جُہد میں مشکلات بڑھ رہی ہیں اور خطے میں اسرائیل ایک نئی طاقت بن کر اُبھرے رہا ہے۔ اس کے برعکس عالم ِ اسلام نام نہاد معاشی ترقی کے پیچھے بھاگ رہا ہے جس کے مثبت نتائج نہ کبھی پہلے سامنے آئے ہیں اور نہ ہی آئندہ اس کی کوئی توقع ہے۔ لیکن یہ سب بھی تاریخ کا حصہ ہیں کہ تحریکیں افراد سے نہیں جذبوں کے زندہ رہنے سے کامیاب ہو تی ہیں۔