جذباتی تربیت

212

معاشرے کی ترقی کا دارومدار افراد کی قوت پر ہے۔ جتنے افراد جذباتی طور پر مضبوط ہوں گے اتنا ہی معاشرہ صحت مند ہوگا۔ روٹی کپڑا مکان سے آگے انسان اپنی جذباتی کمزوریوں کو بھول چکا ہے۔ معاشرے میں جذباتی تربیت کی کمی ایک واضح مسئلہ ہے، اور اس کا اثر انفرادی اور اجتماعی سطح پر نظر آتا ہے۔ اس کمی کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جب افراد اپنے جذبات کو صحیح طرح سے سمجھ نہیں پاتے یا قابو میں نہیں رکھتے، تو تنازعات اور جھگڑے بڑھ جاتے ہیں۔ جذباتی تربیت کی کمی کی وجہ سے لوگ جلدی غصے میں آ جاتے ہیں یا دوسرے کے جذبات کو نظرانداز کر دیتے ہیں، جس سے معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔ ہمیں ہر چوراہے۔ گھر کاروبار پر یہی تنازعات بکھرے نظر آتے ہیں۔ جذباتی تربیت کی کمی لوگوں کو ذہنی دباؤ، تناؤ، اور افسردگی کی طرف دھکیلتی ہے۔ جب افراد اپنے جذبات کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتے، تو وہ اندرونی بے چینی اور ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نوجوانوں کی پریشانی بے روزگاری وسائل کی کمی ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوان فرسٹریشن کا شکار رہتے ہیں۔ معاشرے میں اہم کردار ادا نہیں کر پاتے۔ اسی سے بہت سارے جرائم بھی پیدا ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کوئی ہنر سیکھ کر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کریں۔ جذبات کو سمجھنا اور ان کا مثبت اظہار کرنا کامیاب رشتوں کے لیے ضروری ہوتا ہے، اور جب لوگ اس میں ناکام ہوتے ہیں تو رشتے متاثر ہوتے ہیں۔ طلاق کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ معاشرے میں عدم برداشت کی وجہ سے رشتے ٹوٹ رہے ہیں۔ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے انسان کے اندر صبر و برداشت کی کمی ہو گئی ہے۔

جذباتی تربیت کی کمی معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ دیتی ہے۔ جب لوگ دوسروں کے نقطہ نظر اور جذبات کو سمجھنے اور قبول کرنے کے قابل نہیں ہوتے، تو عدم برداشت اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ انسان اس ٹیکنالوجی کے کھلونے سے دل لگا بیٹھا ہے جہاں دل کا کتھارسس کرنے والا کوئی نہیں۔ دو انسانوں کے درمیان ٹیکنالوجی آچکی ہے۔ لوگ اپنے جذبات کو موثر طریقے سے ظاہر نہیں کر پاتے، جس سے گفتگو میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ افراد کو اپنے خیالات اور احساسات صحیح طرح بیان کرنے سے روکتی ہے، جس سے غلط فہمیاں اور تعلقات میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کو ابتدائی عمر ہی سے جذبات کو سمجھنے اور سنبھالنے کی تربیت دی جائے، تاکہ وہ بڑے ہوکر ایک متوازن شخصیت بن سکیں۔ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ کھل کر بات کرنے اور ان کے جذبات کو سمجھنے کی تربیت دی جائے، تاکہ بچے جذباتی طور پر مستحکم بن سکیں۔

ذہنی آگاہی اور مراقبہ کی مشقیں افراد کو اپنے جذبات پر قابو پانے اور اندرونی سکون حاصل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ نماز انسان کے لیے ذہنی سکون کا باعث ہے جس کی تربیت بچپن ہی سے دے دینی چاہیے۔ جب تک وہ اپنے مسائل اللہ کے سامنے نہیں رکھے گا اسے ذہنی سکون ہے نہیں مل سکتا۔ اللہ سے مضبوط تعلق بھی ذہنی سکون کا باعث بن سکتا ہے۔ معاشرتی اداروں کو جذباتی تربیت پر ورکشاپس اور پروگرام منعقد کرنے چاہئیں تاکہ لوگ جذباتی توازن برقرار رکھنے کے طریقے سیکھ سکیں۔ معاشرے میں جذباتی تربیت کی کمی کو دور کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم جذباتی سمجھ بوجھ کو فروغ دیں، تاکہ لوگ نہ صرف اپنے جذبات کو بہتر طریقے سے سنبھال سکیں بلکہ دوسروں کے جذبات کا بھی احترام کریں۔