کراچی (رپورٹ: محمد انور) 26ویں ترمیم سے چیف جسٹس کاعہدہ سیاسی ہوگیا‘ عدلیہ پر شپ خون مارا گیا‘اب وہ لوگ ججز کا تقرر کریں گے جن کی کوئی تعلیمی قابلیت نہیں ‘ حکمرانوں کی خواہشات پرملک چلے گا ‘عوامی مفادات کے تحفظ کے تصور کو ختم کردیاگیا ‘موجودہ حکمرانوں سے بدتر آمر اور حاکم آئے لیکن اتنا خراب آئینی پیکج کسی نے پیش نہیں کیا۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کے رہنما و بلدیہ کراچی کے پارلیمانی لیڈر سیف الدین ایڈووکیٹ‘ سابق جسٹس وجیہ الدین احمد‘ ممتاز قانون دان خواجہ نوید ایڈووکیٹ اور طارق حمزہ ایڈووکیٹ نیجسارت کیاس سوال کے جواب کیا کہ ’’26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ملک کے آئین اور قانون کا کیا ہوگا؟‘‘ سیف الدین نے کہا کہ اب ملک حکمرانوں کے مفادات اور خواہشات کے مطابق چلے گا کیونکہ اس ترمیم کے بعد عوام کے مفادات کا خیال ہی نہیں رکھا جائے گا‘ موجودہ سینیٹ اور قومی اسمبلی اب تک مکمل نہیں ہے اس لیے یہاں سے کیے جانے والے فیصلے منتخب ایوان کے نہیں کہلائے گے چونکہ پی ٹی آئی کو ریزرو سیٹس نہیں ملیں اور اس اسمبلی کو قوم نے اتنا بڑا مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ آئین میں اس طرح کی ترمیم کریں‘ یہ قانون ساز اسمبلی ہے ناکہ ترمیم ساز اسمبلی۔ ان کو ایسا کرنا تھا تو یا تو آئین کے تحت اسمبلی میں آتے یا ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی رائے لی جاتی‘ فارم 47 اور 45 کے ایشوز کی وجہ سے بھی یہ اسمبلی متنازع ہے‘ قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس اسمبلی کے2 تہائی ممبر جعلی مینڈیٹ کے ذریعے بیٹھے ہوئے ہیں‘ ان کے پاس اصلی مینڈیٹ نہیں ہے‘ پاکستان کا تیسرا بڑا ستون عدلیہ ہے اس کے قوانین میں انہوں نے تبدیلیاں کی ہیں‘ موجودہ حکومت کو اس ترمیم کا اختیار ہی نہیں تھا انہوں نے عدلیہ میں سینیارٹی کا تصور ختم کردیا‘ یہ ایک بد ترین عمل ہے اب وہ لوگ چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر کریں گے جن کی کوئی تعلیمی قابلیت نہیں ہے‘ انہوں نے آئین کے تحت اب عدالت عظمیٰ کے 2 حصے کردیے جس کے تحت ایک حصہ آئینی اور دوسرا اہم مقدمہ سنے گا۔ اول تو یہ جھگڑا ہی ختم نہیں ہوگا کونسا حصہ قانونی اور کونسا آئینی ہوگا۔ وجیہ الدین احمد نے کہا کہ آئین کے 3 ستون ہیں جن میں پہلا مقننہ یا پارلیمنٹ، دوسرا انتظامیہ اور تیسرا عدلیہ شامل ہیں‘ انہوں نے عدلیہ کو انتظامیہ کے آگے کردیا نتیجے کے طور پر یہاں پر 2 ستون رہ گئے‘ اب یہاں پر تیسرے ستون کا کام یہ تھا کہ اگر انتظامیہ کی طرف سے کوئی غلط کام ہو تو اس کا سدباب کیا جائے‘ اب جہاں عدلیہ میں ان کے اپنے افراد ہوں گے تو آزاد عدلیہ کا وہ تصور ختم ہو جائے گا اور ان کی مرضی کے فیصلے آسان ہوجائیں گے‘ ہائی کورٹ کے ججز کے بارے میں اگر کسی کو رپورٹ کی جائے گی اور ان کی کارکردگی دیکھے گے تو اپنی مرضی کا آئینی بینچ مقرر کیا جائے گا ‘ اس سے بدتر آئینی پیکج کسی نے پیش نہیں کیا حالانکہ آمر اور موجودہ حکمرانوں سے بدتر حکمراں بھی آئے‘میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی یہ بات درست سمجھتا ہوں کہ اس ا ٓئینی ترمیم کے ذریعے کالے ناگ کے نہیں بلکہ عدلیہ کے دانت نکال دیے گئے ہیں۔ خواجہ نوید کا کہنا تھا کہ اب نیا آئین آگیا جو غریبوں کے لیے نہیں ہوگا‘ ویسے تو پرانا والا بھی غریبوں کے لیے نہیں تھا اس لیے انہیں فرق نہیں پڑے گا‘ اس آئین کا غریبوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی اس سے جمہوریت کو کوئی لینا دینا نہیں ہے‘ یہ سارے جھگڑے حکمرانوں کے ہیں‘ غریب تو صرف استعمال ہو رہا ہے۔ طارق حمزہ کا کہنا تھا کہ اب چیف جسٹس پوسٹ بھی سیاسی ہوگئی ہے اور آزاد عدلیہ کا تصور ختم ہو جائے گا‘ یہ آئینی ترمیم لاکر عدلیہ پر شپ خون مارا گیا میرٹ کے تحت ججز کی تعیناتی کے لیے مقررہ نظام اب ختم ہو گیا ہے‘ اب اپنے من پسند لوگوں کا عدلیہ میں بھی تقرر کیا جاسکے گا۔