کملا ہیرس کے جلسے میں مسیحی طلبہ کا احتجاج، مذاق اڑائے جانے کے بعد ردعمل

119

وسکانسن: کملا ہیرس کے یونیورسٹی آف وسکانسن-لا کروس میں ہونے والے جلسے کے دوران دو مسیحی طلبہ کے ساتھ طنزیہ رویے اور ہجوم کے مذاق اڑانے کے بعد، ان طلبہ نے اپنے احتجاج کو درست قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ “صحیح وجوہات” کی بنا پر وہاں موجود تھے۔

گرانٹ بیتھ اور لوک پولاسکے، جو یونیورسٹی کے جونیئر طلبہ ہیں، نے معروف ٹی وی پروگرام “Fox & Friends Weekend” پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جلسے کے دوران اس وقت نشانہ بنایا گیا جب انہوں نے کملا ہیرس کی اسقاط حمل کے حقوق پر تقریر کے دوران “Christ is King!” اور “Jesus is Lord!” کے نعرے لگائے۔

ان طلبہ نے دعویٰ کیا کہ انہیں جلسے سے باہر نکالتے ہوئے ہجوم نے ان کا مذاق اڑایا اور ان پر طنزیہ تبصرے کیے۔ بیتھ کا کہنا تھا، “ہمیں دھکے دیے گئے، گالیاں دی گئیں اور ہمارا مذاق اڑایا گیا، لیکن میں نے اس لمحے کو حضرت عیسیٰ اور ان کے پیروکاروں کے تجربات سے تشبیہ دی۔ یہ ٹھیک ہے، کیونکہ ہم نے وہاں خدا کا کام کیا اور ہم وہاں صحیح مقصد کے تحت موجود تھے۔”

جلسے کے دوران ایک موقع پر کملا ہیرس نے احتجاج کرنے والے ان طلبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا، “آپ لوگ غلط جلسے میں آئے ہیں”، جس پر ہجوم نے زور دار قہقہے لگائے اور تالیاں بجائیں۔ انہوں نے مزید کہا، “میرا خیال ہے کہ آپ لوگوں کا چھوٹے جلسے میں جانا تھا جو گلی کے نیچے ہو رہا ہے۔”

یہ واقعہ سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو گیا اور وسیع پیمانے پر بحث کا موضوع بن گیا۔

طلبہ نے کہا کہ وہ ہیرس سے تقریباً 20 سے 30 گز دور تھے اور پولاسکے کا دعویٰ ہے کہ ہیرس نے ان کی جانب دیکھ کر “ہلکی کی مسکراہٹ” دی جب وہ صلیب اٹھا کر ان کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا، “ہیرس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مجھے طنزیہ انداز میں مسکرایا، اور اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ ہمارا وہاں موجود ہونا ضروری تھا۔”

کملا ہیرس کی تقریر میں معیشت کے ساتھ ساتھ 2024 کی انتخابی مہم کے دیگر اہم مسائل پر بات کی گئی، جس میں اسقاط حمل کے حقوق اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سپریم کورٹ میں کیے گئے تقرریوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ “جب کانگریس تولیدی آزادی کی بحالی کا بل منظور کرے گی، تو میں بحیثیت صدر فخر کے ساتھ اس پر دستخط کروں گی۔”