وزیراعظم کا کھوکھلا دعویٰ

92

وفاقی ادارہ اعداد و شمار کی رپورٹ کے مطابق اگست میں مہنگائی کی شرح 9.64 فی صد تھی جو کہ ستمبر میں کم ہو کر6.9 فی صد پر آگئی جہاں نواز شریف اور بلاول زرداری نے اپنی ملاقات میں اطمینان کا اظہار کیا وہیں چھوٹے میاں جناب وزیراعظم شہباز شریف نے دعویٰ کر ڈالا کہ مہنگائی کی شرح 44 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئی ہے جب کہ حقیقی صورتحال اس کے بر عکس ہے ہم وزیراعظم کو 44 ماہ قبل پیچے دھکیلتے ہیں اور انہیں یاد دلاتے ہیں کہ 44 ماہ قبل پٹرول 140 روپے لیٹر تھا جو اب 250 روپے لیٹر فروخت ہو رہا ہے بجلی کا یونٹ 20/22 روپے کا تھا جو اب 45/50 روپے کا ہو گیا ہے گھی 170 روپے فی کلو تھا جو اب 470 روپے فی کلو بازار میں دستیاب ہے آٹا جو 50 اور 55 روپے فی کلو تھا اب 90 اور 95 روپے میں مل رہا ہے یہ صرف چند اشیاء کی مثال دی گئی ہے جبکہ تمام ضروری اشیاء کی شرح میں 100 سے 200 فی صد تک کا اضافہ ہو چکا ہے وزیراعظم صاحب نے 44 ماہ قبل کی شرح کی بات بے کی تو ہم وزیر اعظم صاحب کو 44 ماہ نہیں صرف دو ماہ پہلے کی بات بتاتے ہیں کہ صرف دو ماہ قبل چنے کی دال 250 روپے سے 280 روپے فی کلو فروخت ہو رہی تھی جو کہ آج 400 سے 450 روپے فروخت ہو رہی ہے یہ صرف دوماہ کی بات ہے اب خود ہی سوچیے کہ وزیر اعظم صاحب کے ساتھ غلط بیانی کی گئی ہے یا وہ خود عوام کے ساتھ مزاق کر رہے ہیں۔

ابھی ہماری یہ تحریر زیر قلم ہی تھی کہ ادارہ شماریات نے نئی رپورٹ جاری کر دی جس کے مطابق اکتوبر کے پہلے ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں 0.44 فی صد کا اضافہ ہوا جس کے بعد سالانہ مہنگائی کی شرح 13.80 تک پہنچ گئی جبکہ دوسرے ہفتے میں پھر 0.08 فی صد کی کمی کے ساتھ سالانہ مہنگائی 12.75 فی صد پر آگئی جبکہ تیسرے ہفتے میں 0.28 فی صد کے ریکارڑ اضافے سے مہنگائی کی سالانہ شرح 15.02 پر آگئی۔ چور پولیس یا چوہے بلی کا یہ کھیل تو چلتا ہی رہے گا مگر مہنگائی کی شرح 37 فی صد سے کم ہو کر بھلے 6.9 فی صد یا اس سے کم ہی ہو جائے عوام اس کے ثمرات سے محروم ہی رہیں گے اب خود ہی دیکھیے پٹرول 300 روپے لیٹر سے کم ہو کر 250 روپے ہو گیا مگر عوام آج بھی وہی کرایہ دے رہے ہیں۔ آٹا 140 روپے سے90 روپے پر آگیا مگر عوام آج بھی روٹی 20 روپے میں ہی خرید رہے ہیں جب آٹا اتنا سستا ہوا ہے تو میدہ بھی یقینا اسی حساب سے کم ہوا ہوگا مگر مجال ہے بیکری آئٹم جو 20 روپے سے 50 روپے تک بڑھا دیے گئے تھے 10 روپے بھی کم ہوئے ہوں۔ بچوں کے ٹکی پیک بسکٹ جو 10 روپے سے بڑھ کر 20 روپے کے ہو گئے تھے کہ آج بھی 20 روپے ہی میں فروخت ہورہے ہیں اور سویٹ میٹ والوں نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ سموسہ کی بھی قیمت کم نہیں کریں گے یہ تو وہ میں مہنگائی ہے جو بڑے لوگوں کے ہاتھوں ہو رہی ہے مگر کچھ مہنگائی حکومت نے بھی کر رکھی ہے۔

مہنگی بجلی پر 13 قسم کے ٹیکس۔آئی پی پیز کو بغیر پیداوار کے اربوں ڈالر ادا کر رہے ہیں مگر ان سے بجلی لے کر عوام کو نہیں دے رہے اور عوام 12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ میں مبتلا ہیں (گیس پر فکسڑ چارجیز) پہلے قدرتی گیس کو CNG بنا کر حکمرانوں نے بہت لوٹا کے ساتھ ہی رات 9 بجے کے بعد سے رات بھر غائب رہتی ہے اشیائے خورو نوش اور ادویات پر ٹیکس کی بھرمار۔ ٹیکسز کے نام پر سرکاری لوٹ مار کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کھلا دودھ جو چند ماہ قبل 220 روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا تھا اس وقت بند ڈبوں کا دودھ (ٹیٹرا پیک) فی کلو 270 روپے تھا یعنی کھلے دودھ سے 50 روپے زیادہ کھلا دودھ آج بھی220 روپے ہی فروخت ہو رہا ہے مگر ٹیٹرا پیک دودھ 270 سے 370 روپے یعنی فی کلو 100 روپے اضافے سے فروخت ہو رہا ہے اور 12 کلو کا کاٹن جو پہلے 3 ہزار کا تھا آج 4 ہزار میں مل رہا ہے یعنی صرف ایک کاٹن پر ایک ہزار روپے ٹیکس کیا یہ عوام کے ساتھ ظلم نہیں پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا پیمانہ ہی الگ ہے وہاں روز بروز وزن کم اور قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور جب قیمت بڑھے گی تو حکومت کا جی ایس ٹی بھی بڑھے گا بس حکومت کو اپنے جی ایس ٹی سے غرض عوام جائیں بھاڑ میں۔ گھر کے برتن بھانڈے (ملکی ادارے، ائرپورٹ۔ بندرگاہ) فروخت کر کے عوام کو مقروض بناکر کہتے ہیں کہ ہم نے معیشت کو سنبھال لیا ہے وزیراعظم صاحب!! ایسے تو گھر نہیں چلتے اور آپ چلیں ہیں۔ ملک چلانے؟؟