کراچی کے 75ارب روپے کے منصوبوں کا عمل شروع کیا جائے، وزیر اعلیٰ

130
وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کراچی میںجاری ترقیاتی منصوبوںکے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کررہے ہیں

کراچی (اسٹاف رپورٹر) وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے شہر کے لیے 75 ارب، 63 کروڑ اور 90 لاکھ روپے کے 162 منصوبوں کی منظوری کا عمل شروع کرنے کی ہدایت کردی۔ شہر قائد پر 187 ارب اور 30 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ ان کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں ان منصوبوں کیلیے 14 ارب 80 کروڑ مختص کئے گئے ہیں اور آئندہ سال تک تکمیل کا ہدف ہے جس کے باعث ان منصوبوں پر بلاتاخیر کام شروع کیا جائے۔ انہوں نے یہ ہدایات پیر کو وزیراعلی ہاس میں ایک اجلاس کی صدارت کے دوروان جاری کیں۔ اجلاس میں وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اور توانائی ناصر حسین شاہ، وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، سیکریٹری توانائی مصدق خان، سیکریٹری مالیات فیاض جتوئی، سیکریٹری وزیراعلی رحیم شیخ اور سیکریٹری قانون علی احمد بلوچ نے شرکت کی۔ وزیر منصوبہ بندی و ترقیات ناصر شاہ نے وزیراعلی کو شہر قائد کیلیے 178 ارب 30 کروڑ روپے کے ترقیاتی پروگرام کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ ترقیاتی پروگرام میں صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت 76 ارب ، 95 کروڑ اور 20 لاکھ روپے کے 988 منصوبے شامل ہیں۔ 103 ارب ، 5 کروڑ اور 10 لاکھ روپے کے چھ بڑے منصوبے بیرونی امدادی پروگرام کے تحت بنائے جائیں گے جبکہ 7ا رب 30 کروڑ روپے ضلعی ترقیاتی پروگرام کے تحت خرچ کیے جائیں گے۔ ان منصوبوں میں ہر ایک 50 کروڑ یا اس سے زیادہ کے 87 اہم منصوبے مالی سال 25-2024 کے ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہیں۔ وزیراعلی سندھ کو بتایا گیا کہ 988 منصوبوں میں سے 346 منصوبوں کیلیے مکمل فنڈز جاری کردیے گیے ہیں اور جون 2025 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ 269 ارب 24 کروڑ اور 30 لاکھ روپے کے 826 منصوبوں پر کام جاری ہے، ان منصوبوں کیلیے 62 ارب، 14 کروڑ اور 90 لاکھ روپے رواں مالی سال میں رکھے گئے ہیں۔ اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ 75 رب، 63 کروڑ اور 90 لاکھ کے ایسے 162 منصوبے جن کیلیے رواں مالی سال میں 14 ارب ، 80 کروڑ اور 30 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں ، ابھی منظور ہونے باقی ہیں جس پر وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے وزیر منصوبہ بندی و ترقیات ناصر شاہ کو ان منصوبوں کی منظوری کا عمل شروع کرنے کی ہدایت کی تاکہ کام کا آغاز کیا جاسکے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعلی سندھ کو بتایا گیا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے 988 منصوبوں کی کل لاگت کا تخمینہ 344 ارب، 88 کروڑ اور 20 لاکھ روپے ہے جس کیلیے 76 ارب، 95 کروڑ اور 30 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 242 ارب، 4 کروڑ اور 80 لاکھ روپے کی رقم آئندہ سال کیلیے چھوڑی دی گئی ہے جس پر وزیراعلی سندھ نے وزیر منصوبہ بندی و ترقیات کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام محکموں کے منصوبوں کیلیے مختص فنڈز استعمال ہو جائیں تاکہ منصوبوں کی تکمیل کیلیے آئندہ سال مزید فنڈز دیے جائیں۔ وزیراعلی سندھ کو بتایا گیا کہ بیرونی امداد سے چلنے والے 403 ارب، 98 کروڑ اور 10 لاکھ روپے کے 6 بڑے منصوبوں کیلیے 103 ارب اور 5 کروڑ روپے مختص کردیے گئے ہیں جبکہ 363 ارب، 63 کروڑ اور 60 لاکھ روپے آئندہ سال کیلیے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ چھ بڑے منصوبوں کی تفصیل یہ ہے۔عالمی بینک کی امداد سے 63 ارب 95 کروڑ روپے کا کلک پروگرام شروع کیا گیا جس کا مقصد کراچی میں مقامی کونسلوں کے مالیاتی اسٹرکچر کی بہتری، شہری غیرمنقولہ جائیداد کے ٹیکس نظام کی اصلاح اور کاروباری فضا کو بہتر بنانا ہے۔ عالمی بینک اور اے آئی آئی بی کی مدد سے 16 ارب 70 کروڑ اور 80 لاکھ روپے کا کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی پروجیکٹ شروع کیا گیا جس کا مقصد کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں کثیر جہتی اصلاحات ہے۔المی بینک اور اے آئی آئی بی کی ہی امداد سے جاری 171 ارب، 94 کروڑ اور 80 لاکھ روپے کی لاگت سے کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی فیز2 کا مقصد خراب پانی کی ٹریٹمنٹ، کے فور کی تکمیل ، استعداد کار میں اضافہ اور اصلاحات ہے۔ عالمی بینک کی امداد سے 16 ارب ، 80 کروڑ روپے کی لاگت سے شروع ہونے والے سویپ پروجیکٹ کا مقصد کراچی میں کچرا ٹھکانے لگانے کی خدمات کو بہتر کرنا ہے۔ عالمی بینک کی امداد سے 56 ارب 18 کروڑ اور نوے لاکھ کا بی آر ٹی ییلو لائن پروجیکٹ داد چورنگی سے نمائش، لکی اسٹار براستہ کورنگی روڈ بنایا جا رہا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی 78ارب، 38 کروڑ اور 40 لاکھ روپے کی امداد سے بننے والے بی آر ٹی ریڈلائن منصوبے کا مقصد شہر میں بی آرٹی بسوں کے ذریعے ٹرانسپورٹ کی سہولیات بہتر کرنا ہے۔ یہ بسیں ملیر کینٹ سے ریگل چوک براستہ یونیورسٹی روڈ چلیں گی۔ وزیراعلی سندھ نے بتایا کہ کراچی کے 255 منصوبوں کیلیے 14 ارب، 49 کروڑ، 86 لاکھ اور 84 ہزار روپے یکمشت جاری کیے گئے ہیں۔ ان منصوبوں میں ہر ایک کی لاگت پانچ کروڑ روپے ہے اور یہ سب رواں مالی سال کے آخر تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔