26 ویں آئینی ترمیم: پہلے اور اب ؟

158
Senate and National Assembly meeting

20 اکتوبر کو 26ویں آئینی ترمیمی بل کو سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا جس کے بعد آج صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے دستخط کے بعد 26ویں آئینی ترمیمی بل باقاعدہ آئین کا حصہ بن گئی ہیں ۔ ترمیم سے پہلے اور بعد میں ہونے والی تبدیلیوں کو مختلف نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

پہلے کیا تھا:

سپریم کورٹ کا کردار:

آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے پاس آئینی معاملات کی سماعت اور آئین کی تشریح کا مکمل اختیار تھا۔ سپریم کورٹ کو آئینی مسائل پر حتمی فیصلہ دینے کا اختیار حاصل تھا۔

سپریم کورٹ کے پاس مختلف قسم کے کیسز، خاص طور پر سزائے موت یا تاحیات قید کی اپیلیں، کا براہ راست

اختیار تھا۔آرٹیکل 63A (ڈیفیکشن):

آرٹیکل 63A کے تحت کسی رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کا اپنی سیاسی جماعت سے انحراف کرنے پر اس کا ووٹ شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ ایسے ارکان پارٹی ہدایات کے برخلاف ووٹ دے سکتے تھے، لیکن ان کا ووٹ غیر مؤثر ہوتا تھا۔

ترمیم کے بعد کیا ہوگا:

وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court – FCC):

26ویں ترمیم کے تحت ایک نئی وفاقی آئینی عدالت قائم کی گئی ہے جو سپریم کورٹ سے الگ ہوگی اور اس عدالت کو آئینی معاملات کی سماعت کا حتمی اختیار ہوگا۔سپریم کورٹ اب صرف مخصوص نوعیت کے کیسز جیسے کہ سزائے موت اور تاحیات قید کے مقدمات میں اپیل کا اختیار رکھے گی۔

آرٹیکل 63 میں تبدیلیA : 

اس ترمیم کے بعد اب کسی بھی رکن اسمبلی کا انحراف کے باوجود ووٹ شمار کیا جائے گا۔ یعنی اگر کوئی رکن اپنی پارٹی کی ہدایات کے برخلاف ووٹ دیتا ہے تو اس کا ووٹ اب گنتی میں شامل ہوگا۔

:ماحول کے حقوق

آئین میں “صاف اور صحت مند ماحول” کا حق شامل کیا گیا ہے، جو ہر شخص پر لاگو ہوگا، نہ کہ صرف شہریوں پر۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو اب زیادہ ذمہ داری اٹھانا ہوگی تاکہ تمام افراد کو ماحولیاتی تحفظ ملے۔
آئینی ترامیم پر عدالتی جائزہ:

سپریم کورٹ کے فیصلوں کے علاوہ آئینی ترامیم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، جس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ کو آئینی ترامیم میں زیادہ خودمختاری مل گئی ہے۔

:ترمیم کے اہم نکات 

یہ ترامیم عدالتی نظام کی کارکردگی میں بہتری اور آئینی معاملات کے تیز تر اور مؤثر حل کے لیے کی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ کو آئینی تشریح کے بجائے صرف مخصوص نوعیت کے کیسز تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ انصاف کی فراہمی میں بہتری آئے۔

آرٹیکل 63A میں ترمیم نے سیاسی جماعتوں کے اندر انحراف کے مسئلے پر بھی ایک نیا زاویہ دیا ہے۔
یہ تبدیلیاں آئینی اور قانونی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کے لیے اہم ثابت ہوں گی، جو عدالتوں اور پارلیمنٹ کے درمیان طاقت کی تقسیم اور آئین کی تشریح کے طریقہ کار کو تبدیل کریں گی