فلاحی ریاست سے مراد ریاست کا وہ تصور ہے کہ جس میں ریاست تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور شہریوں کی بہتری کی ذمہ داری لیتی ہے۔ صنعتی اداروں میں وطن عزیز کی معاشی ترقی اور پیداوار کے لیے اپنا خون پسینہ بہا کر خدمات انجام دینے والے جفاکش کارکنوں کا شمار کسی بھی قوم کے قیمتی اثاثہ میں کیا جاتا ہے۔ لیکن صنعتی اداروں میں خدمات انجام دینے والے اکثر کارکن اپنی قلیل آمدنی کے باعث اپنے بچوں کی تعلیم، پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت، علاج و معالجہ، اپنے گھرانے کے سر چھپانے کے لیے ذاتی گھر کی تعمیر، بچیوں کی شادی بیاہ کے اخراجات اور حج بیت اللہ کی ادائیگی کے بھاری اخراجات برداشت کرنے سے قاصر رہتے تھے۔ جبکہ کارکنوں کی دوران کار ناگہانی موت کی صورت میں ان کے پسماندگان بے آسرا اور بے یار و مددگار ہوکر معاشرہ پر ایک بوجھ بن جایا کرتے تھے۔
چنانچہ وفاقی حکومت نے 1971ء میں اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ملک کے لاکھوں صنعتی کارکنوں کو معاشرہ میں ان کا ایک باعزت اور باوقار مقام متعین کرنے کرنے کی غرض سے کارکنوں کی بہبود کا فنڈ (Workers Welfare Fund) کے قیام کا خوش آئند فیصلہ کیا تھا۔
وفاقی حکومت نے اس فنڈ کے قانون کی تمہید میں بیان کیا کہ چونکہ کارکنوں کے لیے رہائشی مکان اور دیگر سہولیات مہیا کرنے اور متعلقہ معاملات کے سلسلہ میں ایک بہبود فنڈ کا قیام امر قرین مصلحت ہے۔ لہٰذا 25 مارچ 1969ء کے اعلان کے مطابق معہ عبوری دستوری حکم اور دیگر اختیارات کو عمل میں لاتے ہوئے صدر مملکت نے ورکرز ویلفیئر فنڈ آرڈیننس 1971ء(نمبر36 مجریہ 1971ء) نافذ کیا تھا۔ اس قانون کا اطلاق پورے پاکستان پر کیا گیا تھا ہوگا اور فوری طور پر نافذ العمل تھا۔
اس آرڈیننس کی رو سے صنعتی کارکنوں کے لیے ایک بہبود فنڈ کا قیام عمل میں لایا جانا مطلوب تھا جو ان منصوبوں کی سرمایہ کاری میں استعمال کیا جائے گا جن کا مقصد کارکنوں کے لیے گھروں کی تعمیر کرنا ہے، یہی اس آرڈیننس کا اصل مقصد ہے،اس کے علاوہ کارکنوں کی بھلائی کے لیے کیے گئے دیگر اقدامات بھی اس آرڈیننس کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
اس’’فنڈ‘‘ کا نام ورکرز ویلفیئر فنڈ(WWF) رکھا گیا جس کے لیے وفاقی حکومت نے 10کروڑ روپے کا ابتدائی سرمایہ فراہم کیا تھا۔ یہ بھی طے پایا کہ اس فنڈ کے لیے صنعتی ادارے بھی اپنا مقررہ حصہ کی رقم ادا کریں گے اور کارکنوں کی بہبود کے امور کی تکمیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔
اس قانون میں ’’آجر‘‘ کے وہی معنی ہیں، جو صنعتی تعلقات آرڈیننس مجریہ 1969ء کی دفعہ 2 میں بیان کیے گئے ہیں اور ’’کارکن‘‘ کے معنی بھی وہی ہیں جو صنعتی تعلقات آرڈیننس 2002ء کی دفعہ 2 میں بیان کیے گئے ہیں۔
جبکہ اس میں صنعتی ادارے کی تعریف بیحد وسیع ہے۔ جن میں تمام قسم کی ایسی فیکٹریاں اور ورکشاپس شامل ہیں جہاں اشیاء کی ڈھلائی یا تیار کی جائیں،اس میں مقامی طریقہ سے چلنے والی کوئلہ اور پتھر کی کانیں ،قدرتی گیس سے چلنے والے کارخانے یا معدنی تیل نکالنے والے کنویں، پبلک ٹرانسپورٹ چلانے والے ادارے یا ایسے ادارے بھی شامل ہیں جنہیں وفاقی حکومت نے ’’صنعتی ادارہ‘‘ قرار دیا ہو۔
ورکرز ویلفیئر فنڈ(WWF) کا انتظام و انصرام ایک سہ فریقی گورننگ باڈی انجام دیتی ہے جسے وفاقی حکومت گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعہ تشکیل دیتی ہے۔گورننگ باڈی کا چیئرمین بربنائے عہدہ وزارت بیرون ملک پاکستانی و ترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان کا سیکرٹری ہوتا ہے اور اس میں ہر صوبہ کے سرکاری نمائندے، ہر صوبہ سے کارکنوں کے نامزد نمائندے اور ہر صوبہ سے آجران کے نامزد نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ جن میں محکمہ صحت،محکمہ محنت،محکمہ سماجی بہبود اور محکمہ بہبود آبادی کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں اور اس باڈی کے ارکان کی تعداد 18سے زائد نہیں ہوگی۔
ورکرز ویلفیئر فنڈ کا انتظامی ڈھانچہ وزارت کے سیکرٹری اور فنڈ کے چیئرمین کی نگرانی میں تین ڈائریکٹر جنرل کے تحت تین ماتحت ڈائریکٹرز انتظامی، مالیات،آئی ٹی، ریجنل ڈائریکٹر (لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ) تعلیم دیگر بہبود، ٹیکنیکل اور ورکرز خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مزید برآں ملک کے چاروں صوبوں میں بھی صوبائی سطح پر ورکرز ویلفیئر بورڈ (WWB)کی تشکیل کی گئی ہے جس کے لیے متعلقہ صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت کی جانب رقم مختص کی جاتی ہے۔ ملک میں اپریل 2010ء میں 18 ویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں صوبہ سندھ میں 2014ء میں، صوبہ پنجاب میں 2019ء میں صوبائی ورکرز ویلفیئر بورڈ تشکیل دیئے گئے تھے۔ جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں کارکنوں کے لیے وفاق کے تحت قائم شدہ ورکرز ویلفیئر فنڈ کے ذریعہ ہی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ صوبائی ورکرز ویلفیئر بورڈ کے چیئرمین بربنائے عہدہ، صوبائی سیکرٹری محکمہ محنت و انسانی وسائل ہوتے ہیں جن کا تقرر صوبائی حکومت کرتی ہے۔ بورڈ کی گورننگ باڈی میں آجران اور کارکنوں کے دو دو نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ گورننگ باڈی کے ارکان کی تعداد 9 سے زیادہ نہیں ہوگی۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلہ میں صوبہ پنجاب کے ورکرز ویلفیئر بورڈ کی جانب سے صنعتی کارکنوں کے لیے خدمات اور کارکردگی نسبتاً بہتر نظر آتی ہے۔
لہٰذا ملک کی صنعتی و معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے مصروف عمل ہزاروں صنعتی کارخانوں میں خدمات انجام دینے والے لاکھوں جفاکش کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کی فلاح و بہبود کے لیے ورکرز ویلفیئر فنڈ (WWF) 1971ء سے آج تک وفاقی انتظام کے تحت وزارت بیرون ملک پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کی زیر نگرانی گرانقدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ کا نظام ایک سہ فریقی گورننگ باڈی چلاتی ہے جس کے سربراہ بربنائے عہدہ وفاقی سیکرٹری وزارت بیرون ملک پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے صنعتی ادارے ورکرز ویلفیئر فنڈ کو اپنی سالانہ قابل تشخیص آمدنی کے 2 اور 5 کے فیصد کے مساوی کنٹری بیوشن ادا کرتے ہیں۔ جبکہ صنعتی ادارے منافع بخش شراکت کارکن ایکٹ مجریہ 1968ء کے تحت بھی ورکرز ویلفیئر فنڈ کو سالانہ بنیاد پر کنٹری بیوشن ادا کرتے ہیں۔ اگر کوئی صنعتی ادارہ اپنے حصہ کا کنٹری بیوشن ادا نہیں کرے تو اس ادارہ سے واجب الادا کنٹری بیوشن بطور مالیہ وصول کیا جائے گا اور تاخیر کی صورت میں تاخیر شدہ رقم کا 8 فیصد جرمانہ کی اصل رقم کے علاوہ قابل ادائیگی ہوگا۔
ورکرز ویلفیئر فنڈ(WWF)کے فلاحی منصوبوں سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ صنعتی کارکن ورکرز ویلفیئر فنڈ آرڈیننس مجریہ1971ء میں دی گئی۔ تعریف پر پورا اترتا ہو یا کارکن صنعتی تعلقات قانون کے تحت کارکن کی تعریف میں آتا ہو یا کارکن EOBI یا متعلقہ ایمپلائیز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن میں رجسٹر شدہ ہو اور کارکن کی مجموعی مدت ملازمت کم از کم تین برس ہو (جبکہ کارکن کی وفات امداد اور ان کے بچوں کے اسکول میں داخلہ کے لیے یہ شرط لاگو نہیں ہے)۔
ملک کے صنعتی شعبہ کے کارکنوں اور ان کے زیر کفالت افراد کے لیے ورکرز ویلفیئر فنڈ (WWF) کی نمایاں خدمات اور کارکردگی کا دائرہ بیحد وسیع ہے۔ جس میں رہائشی شعبہ،تعلیمی شعبہ، ٹیکنیکل اور پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز، لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ہنرمندی کی تربیت، صحت کی دیکھ بھال،مالی معاونت اور دیگر فلاحی اقدامات شامل ہیں۔
ورکرز ویلفیئر فنڈ(WWF) کے تحت اہلیت رکھنے والے صنعتی کارکنوں اور ان کے گھرانے کے لیے صحت کی دیکھ بھال، علاج و معالجہ، رہائشی سہولیات، بچوں کی تعلیم ، ذہین بچوں کو تعلیمی وظائف کی فراہمی، بچوں اور بچیوں کے لیے تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیتی مراکز کے قیام کے علاوہ خواتین کے لیے سلائی مشینوں کی فراہمی، انڈسٹریل ہومز/کمیونٹی سنٹر کے قیام، کارکنوں کی بچیوں کی شادی کے موقع پر 4لاکھ روپے کی شادی گرانٹ (Marriage Grant) اور کارکن کی دوران کار ناگہانی موت کی صورت میں 8لاکھ روپے تک کی وفات امداد(Death Gran) بھی ادا کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ اس مقصد کے تحت ورکرز ویلفیئر فنڈ کی گورننگ باڈی نے 24 فروری 2023ء کو اپنے 156ویں اجلاس منعقدہ اسلام آباد میں کارکنوں کی بچیوں کی شادی خانہ آبادی کے موقع پر شادی امداد اورمتوفی کارکنوں کے لیے وفات امداد کی رقوم پر نظر ثانی کرتے ہوئے بالترتیب 4 لاکھ اور 8 لاکھ روپے منظور کیے تھے۔ جبکہ ورکرز ویلفیئر فنڈ کے تحت ہر سال 10 منتخب محنت کشوں کومقررہ شرائط و ضوابط کے تحت حج بیت اللہ کی سعادت کے لیے حجاز مقدس بھی بھیجا جاتا ہے۔
ورکرز ویلفیئر فنڈ کی جانب سے صنعتی کارکنوں کے لیے خدمات و کارکردگی کے اعداد و شمار کے مطابق کارکنوں کے لیے رہائشی شعبہ کے تحت اب تک 114 رہائشی منصوبے(لیبر کالونیاں) پایہ تکمیل تک پہنچ چکے ہیں جبکہ 26 منصوبوں پر کام جاری ہے۔جس کے نتیجہ میں اب تک 60 ہزار کارکن رہائشی سہولیات سے مستفید ہوچکے ہیں۔
فنڈ کے تعلیمی شعبہ کے تحت اب تک ملک کے مختلف شہروں میں کارکنوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے 117 اسکول قائم کیے گئے ہیں اور مزید 6 اسکول زیر تعمیر ہیں جہاں کارکنوں کے 66 ہزار بچوں کو میٹرک کی سطح تک مفت تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔جبکہ صنعتی کارکنوں کے 67،662 زیر تعلیم ذہین بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں پوسٹ میٹرک اسکالر شپ کے تحت تعلیمی وظائف بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ کارکنوں کے بچوں کی تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت کے شعبہ میں 2 ٹیکنیکل اسکول اور 28 پیشہ ورانہ تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں 30 ہزار سے زائد کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کو ہنر کے مختلف شعبوں میں تربیت فراہم کی گئی ہے۔ اسی طرح 11 ہزار سے زائد صنعتی کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کو حکومت پاکستان کی وزارت وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے قومی ادارہ اسکل ڈیولپمنٹ کونسل(SDC) کے اشتراک سے ہنر کے مختلف شعبوں میں مفت فنی تربیت فراہم کی گئی ہے۔
اسی طرح میٹرک کے امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے کارکنوں کے ذہین بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں نقد انعام سے بھی نوازا گیا۔ اسی دوان ورکرز ویلفیئر فنڈ کے تحت قائم شدہ اسکولوں میں ہنر (Trade)کے مختلف شعبوں میں میٹرک ٹیکنیکل پروگرام کا آغاز بھی کیا گیا ہے۔ جس کے تحت لڑکوں کے لیے ویلڈنگ، الیکٹریشن، پلمبنگ، سینٹری ورک، آٹو کیڈ اور ڈرافٹسمین (سول) جبکہ لڑکیوں کے لیے بیوٹیشن اور اسکن کیئر، بنائی وکڑھائی، آفس سیکرٹری اور کمپیوٹر آپریٹر کی مفت تربیت فراہم کی جاتی ہے۔
(جاری ہے)