کیا بلاول وزیر اعظم بن رہے ہیں

304

مضمون لکھتے وقت ایک مسئلہ اس کے عنوان کے چنائو کا ہوتا ہے۔ بعض اوقات کوئی عنوان ذہن میں کئی دنوں سے کلبلا رہا ہوتا ہے لیکن اسی شش و پنج میں رہتے ہیں یہ عنوان لگایا جائے یا نہیں لیکن جب کسی اور طرف سے ایسی کوئی بات آجائے تو پھر دل مطمئن ہوجاتا ہے۔ آف دی ریکارڈ کے ٹاک شو میں جب کاشف عباسی نے فواد چودھری سے یہ سوال کیا کہ کیا بلاول زرداری وزیر اعظم بن رہے ہیں؟ فواد چودھری نے اس کا کوئی واضح جواب تو نہیں دیا لیکن میں نے اسے اپنا عنوان بنا لیا۔ آصف زرداری صاحب کی اپنی زندگی کی آخری اور شدید خواہش یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک بار بلاول کو وزیر اعظم کی سیٹ پر بیٹھا ہوا دیکھ لیں۔ ہمارے ملک میں بعض خاندان ایسے بھی ہیں جو ملک پر حکمرانی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ان کے یہاں ہر پیدا ہونے وا لے بچے کو مستقبل کا حکمراں سمجھا جاتا ہے۔ انیس سو اسی کی دہائی کے آخر میں جب بلاول زرداری کراچی میں پیدا ہوئے تو اس وقت ہی سے آصف زرداری نے اپنے بیٹے کے وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنے شروع کردیے ہوں گے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو اس وقت یہ سننے میں آیا تھا کہ آصف زرداری نے ن لیگ سے کہا تھا کہ بلاول کو وزیراعظم بنا لیں اور اس کے بدلے تمام وزارتیں اور دیگر مناصب بھی لے لیں لیکن فیصلہ کرنے والی قوتوں نے اس تجویز کو منظور نہیں کیا۔

26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بلاول زرداری کے اچانک فعال ہوجانے پر ایک محتاط تبصرہ کسی نے یہ کیا کہ شہباز شریف کے بارے میں ایک تاثر یہ تو پایا جاتا ہے کہ بہت اچھی اطاعت کرنے والے فرد ہیں لیکن انہوں نے کچھ ڈیلیور کرکے نہیں دیا اس لیے ہوسکتا ہے کہ زرداری صاحب کو یہ اشارے ملے ہوں کہ اگر چھبیسویں آئینی ترمیم منظور ہوجاتی ہے تو بلاول زرداری کے بارے میں کچھ سوچا جا سکتا ہے، اس لیے کہ پیپلز پارٹی کو یہ تو معلوم ہے کہ وہ انتخابات جیت کر وفاق میں تو کبھی حکومت تو نہیں بنا سکتی وہ عملاً صوبہ سندھ کی جماعت بن کررہ گئی ہے اس لیے وہ اب مقتدر قوتوں سے جوڑ توڑ کرکے ہی وفاق میں کوئی مرکزی عہدہ حاصل کرسکتی ہے۔ جنوبی پنجاب یا لوئر پنجاب میں تو اس کے کچھ اثر رسوخ ہیں اور وہاں سے کچھ نشستیں مل جاتی ہیں لیکن اپر پنجاب میں سیاسی طور سے اس پارٹی کا صفایا ہوچکا ہے اس میں پارٹی کی کچھ غلطیاں اگر ہیں تو اس سے زیادہ حالات کا جبر بھی ہے جیسے کہ کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر پیپلز پارٹی سندھ کو راضی نہ کرسکی اگر پیپلزپارٹی جس کو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد تین مرتبہ وفاق میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو اس کی ساری توجہ صوبہ سندھ میں اپنی سیاسی بیس کو مضبوط بنانے کی طرف رہی اور وہ پنجاب کے اہم اشوز کو ایڈریس نہ کرسکی، محض پنجاب سے وزیر اعظم بنا دینا ہی کافی نہیں تھا بلکہ پنجاب میں اپنی سیاسی گرفت مستحکم کرنے کے لیے طوفانی انداز میں کام کرنے کی ضرورت تھی۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ایک بیانیہ ہی اتنا جاندار تھا کہ اسی بنیاد پر بھٹو نے پنجابیوں کے دلوں پر برسوں راج کیا ہے اور بیانیہ یہ تھا کہ ’’طاقت کا سرچشمہ پنجاب ہے‘‘ افسوس کے بعد میں پیپلز پارٹی کی قیادت ایسا کوئی مضبوط بیانیہ نہ بناسکی جو پنجاب کے لوگوں کو اپیل کرتا، اور اب بھی آصف زرداری اگر صدر پاکستان ہیں تو وہ ن لیگ کی وجہ سے ہیں کہ وفاق میں ن لیگ کی کمزور بنیادوں پر حکومت کی تشکیل میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دینا ضروری تھا۔

26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے سب سے زیادہ جان توڑ کوششیں پیپلز پارٹی کی طرف سے ہورہی ہیں بلاول زرداری اس ترمیم کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈروں سے رابطے کررہے ہیں ان کی فعالیت ہی اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ وہ مستقبل کے وزیراعظم بننے کے سہانے خواب دیکھ رہے ہیں۔ خواب دیکھنا کوئی بری بات نہیں ہے ایک نوجوان قیادت جس کو آصف زرداری نے بڑی محنت سے گروم کیا ہے سابقہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ان کو وزیر خارجہ اسی لیے بنوایا تاکہ بین الاقوامی دنیا میں ایک تعارف ہوجائے جس طرح شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارت کے وزیر خارجہ شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے اسی طرح پچھلے سال بھارت میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بلاول زرداری شریک ہوئے تھے اس طرح انہیں کئی سربراہان مملکت سے رابطے کے مواقع ملے تھے۔ ویسے بھی وہ امریکا کا کئی بار دورہ کرچکے ہیں ان کے دورے صرف امریکا گھومنے اور تفریح کے لیے نہیں ہوتے بلکہ وہاں کی اہم سرکاری و غیر سرکاری شخصیات سے ملاقات اور رابطے کے مواقع ملتے ہیں آصف زرداری صاحب بھی اکثر امریکا آتے جاتے رہتے ہیں اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں پاکستان میں اقتدار میں آنے، رہنے اور پھر واپس جانے کی ایک کنجی یہاں بھی ہے۔

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ 8 فروری کے الیکشن کا جو مینڈٹ ن لیگ کے ذریعے سے چوری کروایا گیا ہے پہلے تو اس چوری کے مال میں حصہ بخرا کرنے کے لیے دیگر جماعتوں کو شریک کر کے اتحادی حکومت بنائی گئی۔ لہٰذا موجودہ حکمرانوں کو اور اس کے سرپرستوں کو عدلیہ سے بڑا خطرہ محسوس ہورہا ہے اس لیے سابق جج شوکت صدیقی کے خلاف ریفرنس دائر کرنا پھر انہیں منصب سے معزول کردینا اس کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں کا چیف جسٹس کو خط لکھنا کہ کس طرح انہیں دبائو میں لیا جاتا ہے۔ ان تمام عوامل کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ ہماری عدلیہ نے اپنے پر اور پیر پھیلانے شروع کیے اور مقتدر قوتوں کی طرف سے دیے جانے والے انتخابی نتائج اور اس کے نتیجے میں بننے والی فارم 47 کی حکومت کے خلاف کچھ فیصلے ایسے آنے لگے کہ اسٹیبلشمنٹ کو خطرہ محسوس ہوا کہ اس طرح تو بازی پلٹ سکتی ہے لہٰذا عدلیہ کے پھیلے پر اور پیر کو سمیٹنے کی ضرورت کے پیش نظر بھی اور دیگر قومی مصالح کے پیش نظر 26 ویں آئینی ترمیم کی چابی بلاول کو تھما دی گئی کہ اسی سے وزارت عظمیٰ کا دروازہ کھل سکتا ہے۔

15 اکتوبر کو بلاول زرداری نے مولانا فضل الرحمن سے بلاول ہائوس میں کم و بیش چار گھنٹے تک مذاکرات کیے جس کا نتیجہ میڈیا کو یہ بتایا گیا پیپلز پارٹی اور جے یو آئی میں ترمیم کے حوالے سے اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ دوسرا اشارہ ہے بلاول زرداری کے وزیر اعظم بنائے جانے کا۔ پہلا اشارہ تو ان تحرک، دوسرا مولانا کا مان جانا میرا ذاتی خیال ہے اس کے لیے بلاول بہت کچھ پیچھے ہٹے ہوں گے اور مولانا نے بھی اپنے مستقبل کے خوشگوار جھونکوں کی سرسراہٹ میں کچھ لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے بعد یہ طے ہوا کہ کل یعنی 16 اکتوبر بروز بدھ جاتی امرا میں نواز شریف نے مولانا کے اعزاز میں جو عشائیہ دیا ہے تو وہیں پر اس مسودے پر ن لیگ سے بات ہوگی جس پر مولانا اور بلاول کا اتفاق ہوا ہے۔ اسی دن شام تک ایس سی او کے مہمانوں کی اپنے ممالک کی واپسی بھی ہے پھر یہ اعلان بھی آیا کہ 17 اکتوبر کو جمعرات والے دن صدر نے تین بجے سہ پہر سینیٹ اور چار بجے سہ پہر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں یہ آئینی ترامیم منظور کر لی جائیں گی۔ میں بدھ کے دن ہی یہ آرٹیکل بھیجنا چاہتا تھا پھر سوچا رات کو جو تین بڑی اہم جماعتوں کا جاتی امرا میں مسودے کے حوالے سے اجلاس ہورہا اس کا اس کا رزلٹ بھی آجائے لیکن یہ اجلاس طویل ہوگیا ایک ٹاک شو میں کسی نے کہا اس میں تہجد بھی ہوسکتی ہے دوسرے نے کہا کہ فجر بھی ہو سکتی ہے۔ آج اس خیال سے ہم نے لائٹ آنے کے بعد پانچ بجے ٹی وی آن کیا کہ ترمیم پاس ہوچکی ہوگی لیکن سینیٹر عرفان صدیقی بتارہے تھے کہ کل کے سینیٹ کے اجلاس میں ترمیم پیش کی جائے گی اس سے معلوم ہوا کہ جو مسودہ مولانا اور بلاول نے تیار کیا ہے اس پر ن لیگ کو کچھ تحفظات ہیں عرفان صدیقی کہہ رہے تھے کہ بڑی باتوں پر اتفاق ہوگیا ہے کچھ چھوٹی چھوٹی چیزیں رہ گئی ہیں ٹی وی تجزیوں اور تبصروں میں بہت باتیں آرہی ہیں ہر چینل یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے مولانا اور بلاول کے متفقہ مسودے کے اہم نکات حاصل کرلیے ہیں اب کل کیا ہوگا یہ تو کل ہی پتا چلے گا۔ چلتے چلتے ہم آج 17 اکتوبر کی صبح ہی نکلنے والے ایک اخبار ریاست کی شہ سرخی یہ کہہ کر لکھ رہے ہیں کہ دروغ بر گردن ریاست۔ کہ بلاول زرداری وزیر اعظم اور مولانا فضل الرحمن صدر ہوں گے ن لیگ کو شدید تحفظات ہیں نواز شریف کو خدشہ ہے کہ اگر بات نہ مانی گئی تو ان کی انتخابی نشست اوپن کردی جائے گی۔