اَلنَّبِیُّ الْاُمِّیُّ (حصہ دوم)

325

چونکہ سیدنا اسماعیل ؑ کے زمانے سے ’’اُمُّ الْقُریٰ‘‘ بنی اسماعیل کا آبائی وطن تھا، اس لیے سارے بنی اسماعیل مکۂ مکرمہ کے ساتھ اپنی نسبت کو ظاہر کرنے کے لیے فخر کے ساتھ اپنے آپ کو ’’اُمّی‘‘ کہتے تھے اور قرآنِ کریم نے بھی ان کا ذکر اسی لقب کے ساتھ کیاہے، فرمایا: ’’وہی ہے جس نے اُمِّیُوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول بھیجا‘‘۔ (الجمعۃ:2) اِس آیت میں مکہ معظمہ کے لوگوں کو’’اُمِّیِیْن‘‘ کے لقب سے ذکر کیا گیا، کیونکہ نبی کریمؐ کو براہِ راست اُن کی طرف مبعوث فرمایا گیا تھا۔

نبی کریمؐ کو اُمّی کے لقب سے موصوف کیے جانے کی دوسری معروف وجہ یہ ہے کہ آپؐ ’’نہ لکھتے تھے، نہ لکھے ہوئے کو پڑھتے تھے‘‘، بہت سے اردو مترجمین نے’’اَلنَّبِیُّ الْاُمِّیُّ‘‘کا ترجمہ اَن پڑھ کیا ہے، لیکن احمد رضا قادریؒ نے اس کا ترجمہ ’’بے پڑھے‘‘ کیا ہے، یعنی آپ نے اپنی ولادتِ مبارکہ سے لے کر پہلی وحیِ ربانی کے نزول تک کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، نہ کسی مکتب میں رسمی تعلیم حاصل کی، اردو کا کوئی لفظ ’’اُمّی‘‘ کی پوری معنویت کا احاطہ نہیں کرسکتا، اس لیے بعض مترجمین نے اس کے ترجمہ کے بجائے لفظ اُمّی ہی لکھا ہے، آپ اُسی طرح تھے جیسے اپنی والدۂ ماجدہ کے بطن ِ مبارک سے پیدا ہوئے تھے۔ عام انگریزی مترجمین نے اُمّی کے معنی ’’Illetrate‘‘ لکھا ہے اور مقامِ رسالت کا پاس رکھنے والے مترجم عاقب فرید القادری نے Untutored لکھا ہے، یعنی انہوں نے کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا، نیز عبداللہ یوسف علی اور وحید الدین خان نے بھی اُمّی کا ترجمہ ’’Unlettered‘‘ کیا ہے، یعنی جس نے رسمی طور پر لکھنا نہ سیکھا ہو۔ اُمّی ہونا امام الانبیاء سید المرسلینؐ کے لیے وصف ِ کمال ہے، اس کی حکمت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی: ’’اور آپ اس (قرآن کے نزول) سے پہلے نہ کسی کتاب کو پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے، ورنہ باطل پرست (قرآن کی حقانیت کے بارے میں) شک میں مبتلا ہوجاتے‘‘، (العنکبوت: 48) یعنی اگر آپ نے رسمی طور پر لکھنا پڑھنا سیکھا ہوتا تو قریش ِ مکہ طعن کرتے کہ کوئی خفیہ علمی خزینہ اور دفینہ آپ کے ہاتھ آگیا ہے اور اس میں سے آپ روز پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں، بلکہ قرآنِ کریم نے اس بات کو صراحت کے ساتھ بھی بیان کیا ہے:

’’اور کافروں نے کہا: یہ قرآن تو خود ساختہ ہے، جسے انہوں نے خود گھڑ لیا ہے اور اس کام میں دوسرے لوگوں نے ان کی مدد کی ہے، بے شک کافروں نے ظلم کیا اور جھوٹ بولا اور انہوں نے یہ (بھی) کہا: یہ پہلے لوگوں کے افسانے ہیں جو انہوں نے (کسی سے) لکھوا لیے ہیں، چنانچہ یہ انہیں صبح وشام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں (تاکہ یاد ہوجائیں)، (اے رسولِ مکرم!) آپ کہہ دیجیے: اس قرآن کو اُس ذاتِ پاک نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمینوں کی ہرپوشیدہ چیز کو جانتا ہے‘‘۔ (الفرقان: 4-6)

مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: ’’اُمّی، ’’مَدْرَسی وکِتَابی تعلیم وتعلّم‘‘ سے نا آشنا کو کہتے ہیں‘‘، (تدبر قرآن) اسے آج کل رسمی تعلیم کہتے ہیں۔ علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں: ’’اُمِّی اُس شخص کو کہتے ہیں جو لکھتا نہ ہو، اُمِّی کا معنی ہے: جو اس چیز کی طرف منسوب ہو جس پر اس کی ماں نے اُسے جنا اور وہ اپنے نہ لکھنے میں اُمّی ہے، کیونکہ لکھنا کسبی علم ہے (Acquired Knowledge) ہے اور اُمّی اپنی اصلی حالت پر دلالت کرتا ہے‘‘۔ (لسان العرب) لیکن رسول اللہ ؐ کی نسبت سے اُمّی کے معنی ’’اَن پڑھ کرنا‘‘، نہ صرف جہالت ہے، بلکہ بے ادبی بھی ہے۔ ایک وصف کسی کے لیے عیب اور کسی کے لیے شانِ کمال ہوتا ہے، جیسے ’’مُتَکَبِّر‘‘ بندے کے لیے عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے صفتِ کمال ہے، (ملاحظہ ہو: سورۃ الحشر آیت: 23)، جبکہ بندے کے لیے فرمایا: ’’اور ازراہِ تکبر لوگوں سے اپنا چہرہ نہ پھیرو اور زمین میں اُتراتے ہوئے نہ چلو، بے شک اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے متکبر کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ (لقمان: 18)

رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کبریائی اور عظمت میری شانِ الوہیت ہے، سو جو کوئی اِن میں مجھ سے جھگڑا کرے گا (یعنی تکبر کرے گا) تو میں اُسے جہنم میں ڈال دوں گا‘‘، (ابن ماجہ) ’’نبیؐ نے فرمایا: متکبرین کو قیامت کے دن چیونٹیوں جیسی جسامت میں (بشری شکل میں) اٹھایا جائے گا، اُن پر ہر طرف سے ذلّت چھائی ہوگی، انہیں جہنم کے بُولَس نامی قید خانے میں لے جایا جائے گا، اُن پر ایسی آگ کے شعلے بلند ہوں گے، جسے ’’نَارُ الْاَنْیَار‘‘ (آگوں کی آگ) کہتے ہیں اور انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبال( بدبودار سڑی ہوئی کیچڑ)‘‘ یعنی جہنمیوں (کے زخموں) کی پیپ پلائی جائے گی‘‘۔ (ترمذی) تو جب آپ نے زندگی کے پورے چالیس سال اپنی قوم کے درمیان گزارے، کسی بھی بشر سے کسی بھی طور پر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا اور اچانک علم وحکمت کی باتیں کرنے لگے، تو اس کے سوا اس کی توجیہ اور کیا ہوسکتی تھی کہ اس علم کا مَنبع وحی ِ ربانی ہے، یہ کیا بات ہوئی کہ بندوں سے سیکھنے والا تو عالم کہلائے اور جسے اللہ تعالیٰ براہِ راست علم سے فیض یاب فرمائے، وہ ان پڑھ قرار پائے، آپ کی شان یہ ہے: اُمّی ودقیقہ دان عالم ٭ بے سایہ وسائبانِ عالم۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پڑھیے! آپ کا ربّ ہی سب سے زیادہ کریم ہے، جس نے قلم سے لکھنا سکھایا، انسانِ (کامل) کو وہ (سب کچھ) سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ (العلق: 3-5)

سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا قتادہ سے مروی ہے: نبی کریمؐ اُمی تھے، آپ نہ لکھتے تھے، نہ پڑھتے تھے اور نہ حساب کرتے تھے، (تفسیرِطبری) نبی کریمؐ نے خود بھی لفظ اُمّی کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم اہل عرب اُمی قوم ہیں، ہم نہ لکھتے ہیں، نہ حساب کرتے ہیں‘‘، (بخاری) ایک اور حدیث میں ہے: ’’مجھے اُمی قوم کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا ہے‘‘۔ (صحیح ابن حبان)

ایسا بھی نہیں کہ حجاز میں کوئی بھی لکھنا نہ جانتا ہو، صحابہ ٔ کرام میں کاتبین ِ وحی موجود تھے، حتیٰ کہ غزوۂ بدر میں قریش ِ مکہ کے جنگی قیدیوں میں سے جو لکھنا جانتے تھے، آپؐ نے نقد فدیہ لے کر چھوڑنے کے بجائے، انہیں اس امر پر مامور فرمایا کہ مسلمانوں کو لکھنا سکھائیں۔ ہجرت سے پہلے قریش ِ مکہ نے رسول اللہؐ اور بنو ہاشم کے بائیکاٹ کا جو معاہدہ کیا تھا، وہ بھی تحریری صورت میں بیت اللہ میں آویزاں تھا، نیز ایسی روایات موجود ہیںکہ آپ نے لکھا، حدیث پاک میں ہے:

’’جب نبی ؐ نے ذوالقعدہ میں عمرہ کیا تو اہل ِ مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے منع کردیا حتیٰ کہ آپ نے ان سے اس پر صلح کرلی کہ (آپ آئندہ سال عمرہ ادا کریں گے اور) مکہ میں تین دن قیام کریں گے، جب مسلمانوں نے صلح نامہ لکھا تو انہوں نے اس میں یہ لکھا: یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہؐ نے صلح کی ہے، نمائندۂ کفار نے کہا: ہم اس کا اقرار نہیں کرتے، اگر ہم کو اس کا یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو کسی چیز سے منع نہ کرتے، لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں، آپؐ نے فرمایا: میں رسول اللہ ہوں اور میں محمد بن عبداللہ (بھی) ہوں، پھر آپ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا: رسول اللہ (کے الفاظ) مٹادو، سیدنا علی نے کہا: نہیں! اللہ کی قسم! میں آپ (کے نام) کو ہرگز نہیں مٹائوں گا، تب رسول اللہ ؐ نے اس مکتوب کو پکڑا اور آپ اچھی طرح نہیں لکھتے تھے، پس آپ نے لکھا: یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ہے‘‘۔ الحدیث، (بخاری) نوٹ: سیدنا علیؓ کے ’’رسول اللہ‘‘ کے کلمات نہ مٹانے کا سبب العیاذ باللہ نافرمانی نہیں تھا، بلکہ یہ آپ سے فرطِ عقیدت اور حمیّتِ ایمانی کے سبب تھا۔

مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں: ’’حافظ (ابن حجر) کا میلان اس طرف ہے کہ اس باب کی حدیث (یعنی حضور ؐ کا اپنا نام لکھنا) اپنے ظاہر پر محمول ہے اور اس خاص وقت میں رسول اللہ ؐ کا اُمّی ہونے کے باوجود اپنا نام لکھنا آپ کا معجزہ ہے‘‘۔ (تکملہ فتح الملہم) اصولِ فقہ کا مسلّمہ اصول ہے کہ جب تک لفظ کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کرنا ممکن ہو، اسے مَجاز پر محمول نہیں کیا جائے گا۔ مقامِ الوہیت اور مقامِ نبوت کی بابت جس نے دانستہ یا نادانستہ غلطی کی ہو، اسے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ کے کلمات کے ساتھ جواز پیش کرنے کے بجائے غیر مشروط طور پر اپنی غلطی کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ اور رسولِ اکرم ؐ کے حضور توبہ کرنی چاہیے، یہی روحِ توبہ ہے اور سعادت ہے۔