سینیٹ اجلاس: 26 ویں آئینی ترمیمی بل منظور، حمایت میں 65 ارکان نے  ووٹ دیا، 4 کی مخالفت

137
chairmen have been elected

  اسلام آ باد: ایوان با لانے 26ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری دے دی ، بل  کے حق میں 65 ارکان نے  ووٹ دیا جبکہ4  ارکان نے مخالفت کی تاہم   بل میں جے یو آئی کی ترمیم کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے ایوان کی طرف سے منظور کردہ بل مزید کاروائی کیلئے  قومی اسمبلی کو  ارسال کر دیا ، منظور کردہ  بل کے مطابق  جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز پر مشتمل ہوگا،جوڈیشل کمیشن میں دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے 2،2ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے، آئینی بینچز کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو ہو گا،  اگر قومی اسمبلی تحلیل ہوگی تو سینیٹ سے ہی حکومت اور اپوزیشن کے 2،2 ارکان کمیشن میں شامل کیے جائیں گے ۔

چیئرمین سینیٹ کی زیرصدارت سینیٹ آف پاکستان کے اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کے بل پر رائے شماری کا عمل شروع  ہوا، ایوان نے آئینی ترمیم پر رائے شماری کی تحریک کثرت رائے سے منظور کرلی جس کے بعد ایوان کے دروازے بند کرکے گھنٹیاں بجائی گئیں اور آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل شروع کردیا گیا۔

ایوان نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کی شق نمبر 2 کی منظوری دے دی جس کے حق میں 65 ارکان نے حق میں ووٹ دیا اور 4 نے مخالفت کی۔

 قبل ازیں اجلاس کے آغاز پر نائب وزیراعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے چیئرمین سینیٹ سے معمول کی کارروائی ملتوی کرنے کی تحریک پیش کی جسے ایوان نے منظور کرلیا، بعدازاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان بالا میں 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔

 مجوزہ بل کے مطابق جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ججز اور جوڈیشل کمیشن میں دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے 2،2ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے،  آئینی بینچز کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو ہو گا، اگر قومی اسمبلی تحلیل ہوگی تو سینیٹ سے ہی حکومت اور اپوزیشن کے 2،2 ارکان کمیشن میں شامل کیے جائیں گے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کرتے ہوئے کہا ہے ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ طویل مشاورت کی ہے ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ بھی مشاورت کی گئی۔

 انہوں نے کہاکہ اعلی عدلیہ میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تبدیل کیا گیا اور اس میں پارلیمان نے بڑی محنت اور غور و خوض کے بعد ایک ایسا طریقہ کار متعارف کرایا جس میں یہ ممکن بنایا گیا کہ اعلی عدلیہ میں ججز کی تقرری کو شفاف اور میرٹ کے مطابق کیا جائے۔

وفاقی وزیر  قانون  نے کہاکہ   اس کمیشن کی تشکیل اس طرح کی گئی کہ اس میں متعلقہ شراکت دار ہوں جبکہ صدر اور وزیراعظم نے اپنا اختیار چھوڑ کر پارلیمان کو دیا لیکن اسی دوران سپریم کورٹ میں متفقہ طور پر منظور کی گئی 18ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست دائر کروائی گئی جسے فوری سماعت کیلیے منظور کرلیا گیا اور اس درخواست کی سماعتوں میں یہ پیغام دیا گیا کہ اگر اس نظام میں توازن ساتھ والی عمارت (سپریم کورٹ)کومنتقل نہیں کریں گے تو یہ ترمیم منسوخ کردی جائے گی۔

انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پارلیمان کی بالادستی اور آزادی پر کھلا عدم اعتماد اور کسی حملے سے کم نہیں تھا، ان معروضی حالات میں 19ویں ترمیم کی گئی اور اس 19 ویں ترمیم میں جوڈیشل کمیشن کی کمپوزیشن کا جھکاو اعلی عدالت کی طرف کردیا گیا اور پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات میں بھی تبدیلی کردی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بارکونسل نے بارہا اس حوالے سے مطالبہ کیا اور یہاں تک کہا گیا کہ اس نظام سے زیادہ بہتر نظام اس وقت کام کررہا تھا جب ججز کی تقرری صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر کیا کرتے تھے۔

وزیرقانون نے کہا کہ مجوزہ بل کے مطابق جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز پر مشتمل ہوگا،جوڈیشل کمیشن میں دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے 2،2ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے، آئینی بینچز کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو ہو گا۔

انہوں نے کہاکہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ اس میں چیف جسٹس آف پاکستان، آئینی بینچ کی سربراہی کرنے والے جج، سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین جج، وفاقی وزیرقانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان، پاکستان بار کونسل کا 2 سال کیلیے نامزد کردہ کم ازکم 15 سالہ تجربے کا حامل وکیل، دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے2،2 ارکان اس کمیشن میں شامل کیے جائیں گے اور اگر قومی اسمبلی تحلیل ہوگی تو سینیٹ سے ہی حکومت اور اپوزیشن کے 2،2 ارکان کمیشن میں شامل کیے جائیں گے۔

وزیر قانون نے بتایا کہ مجوزہ ترمیم میں اسپیکر قومی اسمبلی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت پر پورا اترنے والے پارلیمنٹ سے باہر کی خاتون یا اقلیتی رکن کو نامزد کرسکیں گے، انہوں نے کہا کہ کمیشن میں صوبوں کی نمائندگی کو برقرار رکھا گیا ہے۔