ا مریکا کی براؤن یونیورسٹی کے کوسٹ آف وار پروجیکٹ کے تحت رپورٹ شائع کی گئی ہے جس میں واشنگٹن کی جانب سے جنگ کے ایک سال کے دوران اسرائیل پر فوجی اخراجات کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ براؤن یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ 7اکتوبر کے حملے کے بعد خطے میں امریکانے اپنی فوج کی سرگرمیاں بڑھانے پر لگ بھگ 4ارب 86 کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں۔ امریکی فوج پر ہونے والے اخراجات اسرائیلی فورسز پر خرچ کی گئی رقم سے الگ ہیں۔ ان میں یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف بحری مہم کے اخراجات بھی شامل ہیں۔
حوثی باغی گزشتہ ایک برس سے بحیرئہ احمر میں ان جہازوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں جن کا اسرائیل سے کسی بھی قسم کا تعلق ہو۔ امریکا نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حوثی باغیوں کے حملے روکنے کے لیے کئی کارروائیاں کی ہیں۔ براؤن یونیورسٹی نے یہ رپورٹ اسرائیل کے لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف گزشتہ ماہ ستمبر میں کارروائیوں کے آغاز سے قبل مکمل کی تھی۔ یہ رپورٹ جو بائیڈن انتظامیہ کی حماس اور حزب اللہ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی حمایت میں ہونے والے اخراجات کا سامنے آنے والا پہلا تخمینہ ہے۔ غزہ کا انتظام سنبھالنے والی عسکری تنظیم حماس نے 7اکتوبر 2023 ء کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر زمینی، فضا ئی اور بحری راستے سے غیر متوقع حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اسرائیل نے اسی روز غزہ میں حماس کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی۔ غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں اب تک لگ بھگ 42 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔دوسری جانب گزشتہ ماہ سے اسرائیل نے لبنان میں عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف بھی باقاعدہ کارروائی شروع کر دی ہے۔ لبنان میں اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 1400 اموات ہوئی ہیں۔ براؤن یونیوسٹی کی حالیہ رپورٹ ہارورڈ یونیورسٹی کے جان ایف کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ کی پروفیسر لینڈا بیلمز اور معاون محققین ویلیم ہرٹنگ اور اسٹیفن سیملر کے نے ترتیب دی ہے۔پروفیسر لینڈا بیلمز 2001 ء کے بعد امریکا کی جنگوں پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ لگاتی رہی ہیں۔ ان کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل 1948 ء میں اپنے قیام کے اعلان کے بعد سے واشنگٹن کا اتحادی اور امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ فوجی امداد وصول کرنے والا ملک ہے۔ امریکا نے 1959 ء کے بعد سے اسرائیل کو لگ بھگ 251 ارب 20 کروڑ ڈالر کی امداد دی ہے۔
7اکتوبرکے حملے کے بعد سے امریکا نے اسرائیل پر 17 ارب 90 کروڑ ڈالر خرچ کیے جو اب تک کسی بھی ایک برس میں دی جانے والی سب سے زیادہ امداد بھی ہے۔ 1979 ء میں امریکی معاونت سے ہونے والے امن معاہدے کے بعد امریکا نے اسرائیل اور مصر کو سالانہ اربوں ڈالر کی فوجی امداد دینے کا وعدہ کیا تھا۔ صدر براک اوباما کے دور میں امریکی انتظامیہ نے اسرائیل کے لیے 2028 ء تک سالانہ امداد کے لیے ارب 80 کروڑ ڈالر کی حد مقرر کی تھی۔رپورٹ ترتیب دینے والے محققین کا کہنا ہے کہ یوکرین کو فراہم کی جانے والی امریکی فوجی امداد کی دستاویزات عوامی سطح پر دستیاب ہیں۔اس کے برعکس اسرائیل کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 7اکتوبر کے بعد امریکانے اسرائیل کو کیا کیا فراہم کیا ہے؟ یہ جاننا ممکن نہیں۔ اس لیے ایک سال کے دوران 17ارب 90 کروڑ ڈالر کے تخمینے کو مکمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ واضح رہے کہ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد امریکا اسرائیل کو فوجی امداد کے ساتھ ساتھ گولا بارود تواتر سے فراہم کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکا نے دفاعی نظام کی بہتری اور جنگی طیاروں کے لیے ایندھن کے حصول میں بھی اسرائیل کی معاونت کی ہے۔ جو بائیڈن انتظامیہ بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ اس نے اسرائیل کی معاونت کی ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر نے دعویٰ کیا تھا کہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی سب سے زیادہ مدد ان کی حکومت نے کی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں کشیدہ ہوتی ہوئی صورتِ حال میں امریکا نے خطے میں اپنی فوج کی موجودگی کو بھی بڑھایا ہے۔براؤن یونیوسٹی کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے اضافی آپریشن کی وجہ سے اس کو 4ارب 86 کروڑ ڈالر کے مزید اخراجات کرنے پڑے ہیں۔ ان اخراجات میں مصر یا دیگر اتحادیوں کو دی جانے والی امریکی امداد شامل نہیں ہے۔ حماس نے جس وقت اسرائیل پر حملہ کیا تھا اس وقت خطے میں امریکا کے 34 ہزار فوجی موجود تھے۔ 2ماہ قبل اگست میں خطے میں امریکی فوجیوں کی تعداد 50 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اس دوران 2امریکی بحری بیڑے بھی خطے میں موجود تھے،جنہوں نے یمن کے حوثی باغیوں کے کئی حملوں کو بھی ناکام بنایا ۔