غزہ کا المیہ اور مغربی دنیا کی سفاکیت

244

آج ایک خبر نظر سے گزری کہ جرمنی نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو مزید اسلحہ فراہم کرے گا۔ ایک ہفتے پہلے برطانیہ کے وزیر اعظم کا یہ بیان آیا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور جہاں تک امریکا کا تعلق ہے وہ تو مسلسل نہ صرف اسلحے سے اسرائیل کی مدد کررہا ہے بلکہ اس کی حفاظت کے لیے بحری بیڑوں کو بھی الرٹ کیا ہوا ہے۔ غزہ پر اب تک چار سو ٹن بارود گرایا جاچکا ہے پچاس ہزار سے زائد لوگ جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد ستر فی صد ہے شہید ہو چکے ہیں۔ اسی فے صد عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں لیکن اسرائیل کی سفاکیت کی آگ اس پر ٹھنڈی نہیں ہوتی وہ ملبوں پر بنائے ہوئے پناہ گزینوں کے کیمپ پر بھی بمباری کررہا ہے۔ ایک لاکھ کے قریب لوگ زخمی حالت میں ایسے ہیں کہ ان کو مکمل طبی امداد نہیں مل پارہی ہے اتنی تباہی کے باوجود بھی امریکا اب بھی یہی کہہ رہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے امریکا اور تمام یورپی ممالک اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں امریکا میں جو انتخابات ہونے والے ہیں اس میں بھی ٹرمپ اوور کملاہیرس ایک دوسرے سے بڑھ کر اسرائیل کے حق میں بیانات دے رہے ہیں۔
ایسا کیوں ہے کہ پوری عیسائی دنیا مسلمانوں کی مخالفت میں یہودیوں کے ساتھ کھڑی۔ مسلمانوں کے لیے اس میں کوئی حیرت اور اچنبھے کی بات نہیں ہے سورہ بقرہ کی آیت 120کا ترجمہ ہے: ’’یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ ورنہ اگر اس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آچکا ہے، تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے‘‘۔
ہم یہی دیکھتے ہیں کہ بعثت نبوی سے اب تک مسلمانوں کی مخالفت میں یہ دونوں گروہ ایک ہوجاتے ہیں۔ لیکن خود یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی آپس میں شدید اختلافات رہے ہیں۔ اسی سورہ بقرہ کی آیت 113میں اختلاف کا تھوڑا سا اشارہ دیا گیا ہے ترجمہ ہے: ’’یہودی کہتے ہیں عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں۔ عیسائی کہتے ہیں یہودیوں کے پاس کچھ نہیں حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں‘‘۔ تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہے ان یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان بڑی خونریز جنگیں ہوئی ہیں اور آپس میں انہوں بڑے قتل عام کیے دور کیوں جائیے بیسویں صدی میں اسی جرمنی کے سربراہ (وہی جرمنی جو آج اسرائیل کو اسلحہ دینے کی بات کررہا ہے) ہٹلر نے کس طرح یہودیوں کا قتل عام کیا جس کو اب ہولوکاسٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بیش تر یہودیوں کو فیکٹریوں کی چمنیوں میں پھینک دیا گیا تھا، اب یہودیوں کے اس الزام میں کہاں تک صداقت ہے یہ مسئلہ تو الگ ہے لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنے اس ظلم کا بدلہ مسلمانوں سے اس طرح لے رہے ہیں کہ فاسفورس بم مار کر مظلوم فلسطینیوں کے جسم کو کوئلوں اور راکھ میں تبدیل کررہے ہیں اس کے باوجود بھی عیسائی دنیا کہہ رہی ہے کہ ہم اپنے مظلوم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی کریمؐ کی بعثت سے تقریباً چھے سو سال قبل سیدنا عیسیٰؑ کی بعثت ہوئی اور سیدنا عیسیٰؑ سے تیرہ سو سال قبل سیدنا موسیٰؑ کی بعثت ہوئی تھی۔ بنی اسرائیل کو اللہ نے دنیا کی امامت کے منصب پر سرفراز کیا ہوا تھا۔ پھر انہوں نے کس کس طرح اپنے عہد سے بے وفائی کی اور اپنے رسولوں کو جھٹلایا اور ان کو قتل تک کردیا پورا قرآن اس سے بھرا پڑا ہے۔
ہم یہاں یہ نکتہ واضح کرنا چاہیں گے کہ سیدنا عیسیٰؑ کی بعثت کے بعد سے محمد عربیؐ کی بعثت تک کے درمیانی ادوار میں خود یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان جتنی خونریز جنگیں ہوئیں ان کو ملالیا جائے تو یہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ لاکھوں یہودی عیسائیوں کے ہاتھوں اور لاکھوں عیسائی یہودیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ یہ جو آج اسرائیل فاسفورس بم کے ذریعے فلسطینیوں کے جسموں کو کوئلے اور راکھ میں تبدیل کررہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ یہودی خباثت کا تسلسل ہے جو صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ قرآن میں اصحاب الاخدود کا ذکر ہے۔ تیسویں پارے کی سورہ البروج کی ابتدائی آٹھ آیات کا ترجمہ ہے ’’قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی مارے گئے گڑھے والے (اس گڑھے والے) جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔ جبکہ وہ اس گڑھے کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان والوں کے ساتھ کررہے تھے اسے دیکھ رہے تھے۔ اور ان اہل ایمان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘‘۔
جس طرح آج فاسفورس بموں سے انسانوں کو جلا کر راکھ کیا جارہا ہے، اسی طرح گڑھوں میں آگ جلا کر ایمان لانے والوں کو ان میں پھینکنے کے متعدد واقعات روایات میں بیان ہوئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کئی مرتبہ اس طرح کے مظالم کیے گئے اس طرح کا ایک واقعہ جو اب سے 1501 سال قبل اکتوبر 523 عیسوی میں پیش آیا تھا۔
’’یمن میں سب سے پہلے عیسائی حبشیوں کا قبضہ 340 عیسوی میں ہوا تھا جو 378 تک جاری رہا تھا۔ اس زمانے میں عیسائی مشنری یمن میں داخل ہونا شروع ہوئی۔ اسی کے قریب دور میں ایک زاہد و مجاہد اور صاحب کشف و کرامات عیسائی سیاح فیمیوں (Faymiyun) نامی نجران پہنچا اور اس نے وہاں کے لوگوں کو بت پرستی کی برائی سمجھائی اور اس کی تبلیغ سے اہل نجران عیسائی ہوگئے۔ ان لوگوں کا نظام تین سردار چلاتے تھے۔ ایک سید جو قبائلی شیوخ کی طرح بڑا سردار اور خارجی معاملات، معاہدات اور فوجوں کی قیادت کا ذمے دار تھا۔ دوسرا عاقب جو داخلی معاملات کا ذمے دار تھا۔ اور تیسرا اسقف (بشپ) جو مذہبی پیشوا ہوتا تھا۔ جنوبی عرب میں نجران کو بڑی اہمیت حاصل تھی ٹسر، چمڑے اور اسلحے کی صنعتیں یہاں چل رہی تھیں اسی وجہ سے محض مذہبی وجوہ ہی سے نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی وجوہ سے بھی ذونواس (یہودی) نے اس اہم مقام پر حملہ کیا نجران کے سید حارثہ کو جسے سریانی مورخین Arethas لکھتے ہیں قتل کیا اس کی بیوی رومہ کے سامنے اس کی دو بیٹیوں کو مار ڈالا اور اسے ان کا خون پینے پر مجبور کیا پھر اسے بھی قتل کردیا۔ اسقف پال کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلادیں۔ اور آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں عورت، مرد، بچے، بوڑھے، پادری اور راہب سب کو اس میں پھکوادیا۔ مجموعی طور پر بیس سے چالیس ہزار مقتولین کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ یہ واقعہ اکتوبر 523 میں پیش آیا تھا۔ آخر سن 525 میں حبشیوں نے یمن پر حملہ کرکے ذونواس اور اس کی حمیری سلطنت کا خاتمہ کردیا‘‘۔
(سورہ البروج آیت 4 اور حاشیہ 4 تفہیم القران جلد ششم صفحہ 297)