میں: مجھے تو آج کی گفتگو کے عنوان سے ڈر سالگا رہا ہے۔ یہ کیا تم آخرت اور موت کی باتیں کرنا چاہتے ہو۔
وہ: ہم جب سے اس دنیا میں آئے ہیں محراب و منبر سے بس یہی گردان کانوں میں پڑی ہے کہ دنیا کی محبت چھوڑو آخرت کی فکر کرو، تو آج ہم تم بھی تھوڑی دیر کے لیے آخرت کے موضوع پر بات کرلیتے ہیں۔
میں: لیکن جب سے یہ دنیا بنی ہے ہزاروں لاکھوں پیغمبر، مذہبی پیشوا، اور سیکڑوں فلسفی اور شاعر، زندگی اور آخرت پر نہ جانے کتنی ہیں باتیں کر تو چکے ہیں، پھر کیا ضرورت پڑی ہے گڑے مردے اکھاڑنے کی۔
وہ: اچھا یہ بتائو آخرت کسے کہتے ہیں؟
میں: انسان کی اس زمین یا اس دنیا میں ختم ہونے کے بعد شروع ہونے والی زندگی، آخرت ہے اور یہ کہ وہ زندگی ہمیشہ رہے گی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ تمہیں یہ بات عجیب نہیں لگتی جو زندگی ہمیشہ رہے گی وہ آخرت ہے اور جو چند روزہ ہے وہ زندگی ہے!
وہ: اس دنیا کے بعد جو آخرت ہے، اصل میں وہ زندگی ہی ہے، جسے خدا نے ہمیں سمجھانے کے لیے آخرت کا نام دیا ہے۔ دراصل زندگی تو ہمیشگی کا نام ہے ۔۔۔ ہمیشہ رہنے کا نام ہے۔۔۔ اس دنیا کی زندگی اور آخرت ہماری زندگی کے دورخ ہیں، دو جائے مقام ہیں۔۔۔ میر ؔنے کیا خوب کہا ہے
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لیکر
میں: لیکن معاملہ کچھ اتنا آسان بھی نہیں، دم لیکر آگے چلنے سے پہلے کا مرحلہ ہی تو سب سے دشوار ہے، یہی وہ فیصلہ کن موڑ ہے جہاں اس ہمیشگی کی زندگی کا تعین ہونا ہے۔ آیا کہ ہم جنت کے حق دار ٹھیریں گے یا دوزخ ہمارا مقدر ہوگی۔
وہ: مگر مشکل یہ ہے کہ آخرت میں اس تعیناتی کی بنیاد ہماری اس دنیا کی کارگزاری قرار پائے گی۔
میں: پر میری سمجھ میں ایک بات آج تک نہیں آئی کہ روزِ محشر یہ کام کیسے ہوگا، کہ انسان کی گزاری ہوئی زندگی کا تمام احوال اس کے سامنے آجائے گا، وہ سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھ لے گا، اور اپنی صفائی میں کچھ بولنے کی معمولی سی کوشش بھی رائیگاں چلی جائے گی۔
وہ: یقینا یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ روزِ حشر یہ سب کچھ کیسے ہوگا، کیوں کہ انسان کو اس زمین پر دیا گیا اختیار بے اختیاری اور بے بسی میں تبدیل ہوجائے گا۔ لیکن میرے ذہن میں ایک بات بڑے عرصے سے گھوم رہی ہے جس نے سوچ کو کئی نئے زاویے دکھائے ہیں۔ تم نے سلیکون کا نام ضرور سنا ہوگا۔
میں: ہاں یہ ایک کیمیائی عنصر ہے جس کا ایٹمی نمبر 14 ہے لیکن اس گفتگو سے اس کا کیا تعلق؟
وہ: سلیکون آکسیجن کے بعد زمین پہ سب سے زیادہ پایا جانے والا دوسرا مادہ ہے جوکہ خالص حالت میں علٰیحدہ سے نہیں ملتا بلکہ ریت، مٹی، گرد وغیرہ کی شکل میں دنیا میں ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا کیا ہوا اور کیا پانی کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں سلیکون کا مادہ نہ ہو۔ موجودہ دور میں اس کا سب سے زیادہ اور اہم استعمال کمپیوٹر اور مائیکرو الیکٹرونکس کی صنعت میں کیا جارہا ہے۔ کمپیوٹر چِپس، میموری کارڈز ٹرانزسٹرز اور الیکٹرونک کے بیش تر آلات وغیرہ کی تیاری میں سلیکون ہی بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید دنیا کی معیشت میں اس کی اہمیت اس قدر زیادہ بڑھ چکی ہے کہ بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کے آغاز کے دور کو سلیکون کا عہد کہا گیا ہے۔
میں: آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو؟
وہ: انسان کو فلم اور ویڈیو بناتے ہوئے کم وبیش سو، سوا سوسال گزرے ہیں، ابتدا میں ریکارڈنگ فلم ٹیپس میں ہوتی تھی اور وہ بعد ازاں، ٹیلی وژن اور پردے یا سینما وغیرہ میں چلائی جاتی تھی، اور آج اس کی جگہ چھوٹی چھوٹی مائیکرو چِپس نے لے لی ہے۔ اوران کا بنیادی عنصر ہے سلیکون۔ تو جب انسان اس سلیکون کو استعمال کرکے نت نئی ویڈیوز بناکر محفوظ کرسکتا ہے تو بالکل اسی طرح اس کائنات میں موجود سلیکون میں انسان کے ہر عمل کی ریکارڈنگ کیوں نہیں ہوسکتی؟۔ انسان گہرے پانیوں میں ہو یا بلندو بالا پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کرنے میں کوشاں، اس کا گھر کوئی عالیشان کوٹھی ہو یا کسی صحرائی علاقے میں کوئی جھونپڑی، کسی موٹر کا سواری ہو یا ہوائوں میں محو سفرہو، اس کا کہا ہوا ہر لفظ اورکیا ہوا ہر عمل سلیکون کے مادے کی موجودگی کی وجہ سے ہر جگہ ریکارڈ ہورہا ہے۔ اور جیسا کہ مشاہدے سے ثابت ہے کہ انسان اپنی محنت، جستجو اور تجربے کے نتیجے میں سلیکون کے اس مصرف تک پہنچا ہے تو پھر اُس ربّ ذوالجلال کے لیے یہ کام تو اتنا آسان ہے کہ اس کے بس ایک امر سے پلک جھپکتے میں انسان کا سارا ڈیٹا یکجا ہوجائے گا اور ہو سکتا ہے ایک میموری یا ایس کارڈ کی شکل میں اس کا نامہ ٔ اعمال اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا جائے۔ اور پھر قرآن میں بھی کئی مقامات پر یہی یاددہانی کرائی گئی ہے کہ انسان نے جو کچھ اس دنیا میں کمایا ہے وہ آخرت میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔
میں: تم نے ایک بار پھر مجھے سوچنے پر مجبور کردیا اور یہ بات کسی حد تک میری سمجھ میں آرہی ہے۔
وہ: میرے دوست جب ایمان کی دولت ہاتھ آگئی تو پھر عقل پیچھے رہ جاتی ہے اور دل کی دنیا روشن ہوجاتی ہے، مگر آج کے انسان کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ جو علم وہ حاصل کررہا ہے اس نے اسے اندھا کردیا ہے، جس چیز کو اپنی آنکھ سے دیکھنے کے بعد عقل قبول کرتی ہے اسے مان لیتا ہے جو نظرسے پوشیدہ ہے اس سے منکر ہوجاتا ہے۔ اقبال نے کہا ہے نا
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
میں: تم اس موضوع پر بات کرتے ہوئے مجھے بہت مطمئن نظر آرہے ہو، ورنہ آخرت کے تو تصور سے ہی انسان کی روح فنا ہونے لگتی ہے، نہ جانے کیا ہوگا، یہاں کی گئی کوئی نیکی کام بھی آئے گی یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔
وہ: تمہاری فکر بجا ہے کہ آخرت پر یقین اور خوف خدا رکھنے والا ہر بندہ انجام کے بارے میں ایسے ہی سوچتا ہے اور مغفرت کے لیے اپنے عمل سے زیادہ خدا کی رحمت کا طلب گار ہوتا ہے۔ پر میرے ذہن میں اس پریشانی سے بچنے کی ایک ترکیب ہے اگر غور کریں تو شاید کوئی راہ سُجھائی دے۔
میں: اب کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں؟
وہ: دیکھو وہ زندگی جو مرنے کے بعد ہے وہ ہمیشہ رہے گی اور جو اس دنیا کی زندگی ہے وہ بالآخر ختم ہوجائے گی، تو پھر کیوں نہ اس زندگی کو آخرت تصور کرلیں اور حیات بعد الموت کو ہمیشہ کی زندگی۔ یعنی اس وقت ہم آخرت میں جی رہے ہیں اور اصل زندگی تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔ ذرا غور کرو اس زندگی میں اگلی سانس کا یقین نہیں اس جینے کے لیے مرے جارہے ہیں۔ تو پھر کیا خیال ہے اس بے خودی کو خدا حافظ کہیں اور ابدی زندگی کے حصول کے لیے آخرت میں جینا شروع کریں۔ اس شعر پر آج کی گفتگو کا اختتام کرتے ہیں، شاعر کا نام ابھی ذہن میں نہیں آرہا۔
بے خودی میں جی رہا ہے آدمی
ہوش آجائے تو جینا چھوڑ دے