جدید مغربی فکر پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کرنے والے تین فلسفیوں کی فہرست وضع کی جائے گی تو اس میں نٹشے کا نام ضرور ہو گا۔ نٹشے کے تین لفظوں پر مشتمل کافرانہ فقرے God is dead نے جو طوفان اٹھایا، اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ لیکن اس فقرے کی صرف لغوی تعبیر درست نہیں۔ نٹشے کے اس فقرے کے ایک معنی یہ بھی تھے کہ خدا کا تصور ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں موجود تو ہے مگر موثر نہیں۔ یعنی اگر خدا پر ہمارا ایمان ہے تو اس ایمان کے مظاہر کیوں نظر نہیں آتے۔ یہ وہ وقت تھا جب عیسائیت کا ترجمان چرچ مثبت معنوں میں اپنی سیاسی و سماجی معنویت یا Relevence سے محروم ہو چکا تھا اور اس میں اتنی خرابیاں در آئی تھیں کہ عقیدہ صرف قول بن کر رہ گیا تھا۔ قول کچھ تھا، عمل کچھ تھا۔ چنانچہ نٹشے چیخ پڑا اور اگر اس کی چیخ کا ترجمہ کیا جائے تو نٹشے سوال اُٹھا رہا تھا کہ ہماری زندگی ہمارے عقیدے کی گواہی کیوں نہیں دے رہی؟ آخر خدا کہاں ہے؟
ظاہر ہے کہ نٹشے کا فلسفہ اس کافرانہ فقرے تک محدود نہیں، لیکن اس کی فکر کا کوئی گوشہ اس فقرے کی دست برد سے محفوظ بھی نہیں۔ دیکھا جائے تو اس فقرے کی تعبیر کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہماری تاریخ میں منصور حلاج کے دو لفظوں پر مشتمل فقرے انا الحق کے ساتھ ہوا۔ اس کا لفظی ترجمہ میں حق ہوں یا نعوذ باللہ میں خدا ہوں، کیا گیا۔ لیکن ہمارے بڑے بڑے صوفیاء اور علماء کا کہنا ہے کہ اس کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف حق ہے میں نہیں ہوں۔
بہر حال یہ الگ معاملہ ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ دین صرف عقیدے یا رسوم کا مجموعہ نہیں ہوتا، وہ انسانوں اور زندگی کے لیے ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ خود زندگی ہے۔ لیکن اگر وہ صرف قول بن جائے اور ہماری عملی زندگی میں اس کی شہادتیں فراہم ہونا بند ہو جائیں تو پھر مذہب صرف ایک نعرہ بن کر رہ جاتا ہے اور حساس ذہنوں میں اس کے حوالے سے غیر ضروری سوالات پیدا ہونے لگتے ہیں۔
اسلام کی تاریخ عیسائیت کی تاریخ سے بہت مختلف ہے اور ہمارے یہاں تو اتر کے ساتھ ہونے والے عظیم ’’کارِ تجدید‘‘ نے ہماری معاشرت میں وہ خرابیاں پیدا نہیں ہونے دیں جو مغرب میں عیسائیت کو لے ڈوبیں۔ لیکن ہمارے یہاں مذہب اور علماء کی سیاسی و سماجی معنویت یا Relevence بہر حال کمزور پڑی ہے۔
اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کا بہت بڑا فکری کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کی کلیت اور ہمہ گیری کے تصور کو بحال کرنے کے لیے ساری زندگی وقف کر دی۔ اس کارنامے کے عالم گیر فکری اثرات ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کا معاشرتی منظر نامہ ہمارے سامنے ہے۔ مذہبی وسیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی بات اور ہے لیکن معاشرے کی بہت بڑی تعداد علماء کو سیاسی اور سماجی حوالوں سے Relevent نہیں سمجھتی۔ اس کا خیال ہے کہ قرآن پڑھانے، مسجد میں امامت کرنے، نکاح اور نماز جنازہ پڑھانے کے لیے تو مذہبی شخصیت درکار ہے لیکن مذہبی شخصیت کی کوئی سیاسی رائے اور سماجی کردار بھی ہو سکتا ہے۔ اس بات کا ان کو خیال تک نہیں آتا۔ اس سے مذہبی شخصیت کی سماجی تکریم اور ان کی عوامی ساکھ میں ایک ایسی کمی واقع ہوئی ہے جس کے نقصان کا اندازہ بھی دشوار ہے۔
اس میں بڑا قصور عوام کے فہم کا ہے لیکن علماء کا طبقہ بھی اس حوالے سے قصور وار ہے۔ وہ عصری زندگی کی علمی بحثوں، مکالمے اور بین الاقوامی و مقامی سیاسی و سماجی اور معاشی و ابلاغی منظرنامے میں کہیں موجود و شریک نہیں۔ حالانکہ اس کام کی سب سے زیادہ اہلیت بھی انہی کے اندر پائی جاتی ہے۔ جس نے علم دین حاصل کر لیا اسے اور کیا سیکھنا ہے! اس کے بعد ان کے کرنے کا واحد کام یہ رہ جاتا ہے کہ وہ عصری زندگی کے مسائل پر توجہ دیں اور جدید علمی رجحانات پر طائرانہ نگاہ ڈال کر اسلامی فکر کی روشنی میں عوام کی رہنمائی کریں۔ مگر ہمارے اکثر خطیب ابھی تک وضو اور غسل کے معاملات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ ان معاملات کی اہمیت کم نہیں لیکن علماء ان امور پر عوام کی رہنمائی کرتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ یہی تو ان کا کام ہے، یعنی اس کام سے ان کی عوامی ساکھ میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور وہ ہماری پوری زندگی کے لیے کفایت کرتے نظر نہیں آتے، حالانکہ اُمت مسلمہ کی ضرورت یہ ہے کہ ہمارے علماء اور خطیب پوری زندگی کے لیے بہ تمام و کمال کفایت کرتے نظر آئیں۔ جن علماء اور خطیبوں میں اس وقت بھی یہ اہلیت ہے، عوام کی نظروں میں ان کا مقام بہت بلند ہے اور وہ ہمارا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔
ایک مسئلہ یہاں قومی اور بین الاقوامی زندگی اور مسائل کو ان کا حقیقی تناظر فراہم کرنا ہے۔ یہ صرف نظری زندگی کا دائرہ ہے مگر موجودہ حالات میں اس کی اہمیت بھی بہت بڑھ گئی ہے اور علماء یہ کام بہت اچھا کر سکتے ہیں۔
اس وقت ہماری قومی زندگی کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ کرداری سانچوں یا رول ماڈلز کی ہے۔ اور اگر یہ رول ماڈلز مذہبی طبقات سے فراہم نہیں ہوں گے تو کہاں سے ہوں گے؟ اس حوالے سے ظاہری شکل وصورت کی اہمیت اتنی نہیں جتنی عملی زندگی کے لیے تجربے کی ہے۔ ہماری نئی نسل کو ٹھوس تجربہ درکار ہے۔ اس کے ذریعے ہم اپنے نوجوانوں کے ذہن میں دین اور مذہبی شخصیات دونوں کی معنویت کو راسخ کر سکتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حماس اور حزب اللہ جیسی تنظیمیں اپنی مزاحمتی روش سے مسلم عوام پر کیا اثر ڈال رہی ہیں۔ ان کا سیاسی اور عسکری کردار مذہبی ایقان کو مستحکم کر رہا ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہمارے علماء، مفتیانِ کرام اور خطیب قومی و بین الاقوامی سطح پر بر پا تہذیبی معرکے میں دل و جان سے شریک ہو جائیں اور مذہبی شعور کی وہ آبیاری کریں جو ہمیں صدیوں سے درکار ہے۔