کراچی (رپورٹ: سید وزیر علی قادری) پاکستان میں خواتین کی آبادی کا تناسب 52 فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے، لیکن بدقسمتی سے حکومتی سطح پر انہیں سہولیات فراہم کرنے میں ناکامی دیکھی جا رہی ہے، خاص طور پر ورکنگ ویمن کو پبلک ٹرانسپورٹ اور تحفظ کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ورکنگ ویمن اور طالبات کا رات کو بسوں یا دیگر ذرائع سے واپس دیر سے گھر پہنچنا سب سے بڑا مسئلہ ہے، ملک میں خواتین 52فیصد سے زیادہ ہیںلیکن انہیں مردوں کے برابر حقوق دینے کو کوئی تیار نہیں‘پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز کو مل کر ان مسائل کا حل نکالنا چاہیے‘جسارت کے سوال ورکنگ ویمن کے سفر میں حائل مشکلات کا حل کیا ہے ؟ “جسارت” نے مختلف مقتدر خواتین سے ورکنگ ویمن کو درپیش سفری مشکلات کے حل کے بارے میں رائے لی جن خواتین نے رائے دی ان میںنیلو فر سلطانہ، صائمہ قمر، راحیلہ فردوس، جہاں آرا لطفی، صابرہ شاکر ایڈووکیٹ، فرحانہ حسین، صبیحہ احتشام، ندا سہیل، ڈاکٹر سلوت عسکری اور عمارہ طارق شامل ہیں۔نیلو فر سلطانہ کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے خصوصی بسوں کی عدم موجودگی اور ٹوٹے پھوٹے راستے سفر کو مزید مشکل بناتے ہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ خواتین کے لیے مخصوص بسیں چلائی جائیں اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل کے لیے جامع پروگرام تشکیل دیا جائے۔صائمہ قمر نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کے ساتھ ساتھ سماجی رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمارے سماجی نظام ایسے بن چکے ہیں کہ عورت اکیلی سفر کرنے میں محفوظ محسوس نہیں کرتی۔ ” انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کے لیے مخصوص بسیں فنانشلی طور پر ممکن نہیں، لیکن نئے روٹس متعارف کرانے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو بہتر سفری سہولیات فراہم کی جا سکیں۔صائمہ قمر نے کہا کہ خواتین کے لیے مخصوص سیٹیں مختص کی جائیں اور نئے روٹس متعارف کرائے جائیں تاکہ ملازمت پیشہ خواتین محفوظ طریقے سے اپنے دفاتر پہنچ سکیں۔ راحیلہ فردوس نے کہا کہ خواتین کو کام کے دوران مردوں کی غیر اخلاقی حرکتوں اور نازیبا رویوں کا سامنا رہتا ہے، اور جب تک سخت قوانین نہیں بنائے جاتے، خواتین کے لیے سفراوردفاتر میں کام خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔پروفیسر سیما ناز صدیقی نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے، خصوصاً وہ خواتین جو پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کرتی ہیں، انہیں سفری مشکلات کے ساتھ ساتھ سیکورٹی خدشات کا بھی سامنا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز کو مل کر ان مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔ ان کامزید کہناتھاکہ حکومت کو خواتین کے ملازمت کے اوقات کار کو بہتر طریقے سے ترتیب دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے کام سے جلدی فارغ ہو کر محفوظ طریقے سے اپنے گھروں کو پہنچ سکیں۔صابرہ شاکر ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہر ایک کی اپنے مشکلات ہوتی ہیں ‘خواتین کے مسائل کو حکومتی اور اداروں کی سطح پر سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی‘ صبیحہ احتشام نے کہا کہ وہ سوال پر میں غور کر رہی تھی ورکنگ مومن کے حوالے سے ظاہر ہے عورت کا اصل محاذ تو گھر ہوتا ہے اس کے بچے ہوتے ہیں لیکن اگر ضرورت میں جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے اور کوئی شعبہ کوئی کام اختیار کرتی ہے تو آسانی تو نہیں ہوتی اسے ایک ساتھ 2 محاذوں پر لڑنا ہوتا ہے ایک اس کا گھر جو متاثر نہ ہو بچوں کی تربیت جس میں کوئی کمی نہ رہ جائے اور گھریلو دیگر ذمہ داریاں بھی تو اس وقت اس کی جو ہے مینجمنٹ اور اس کی حکمت اس کو آسانیاں دیتی ہے‘ تعلیم اور طب کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی اگر خواتین کے علیحدہ کارخانے ‘ فیکٹریاں ہوں تاکہ وہ باآسانی عز ت سے اپنا روزگار کما سکیں۔ڈاکٹر سلوت عسکری نے ٹرانسپورٹ کے مسئلہ کو اہم ترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ عورت جو کبھی گھر سے کیا بالکل دروازے سے بھی باہر نہیں نکلی تھی وہ کراچی میں آ کر روزگار شروع کر دیتی ہے ۔کراچی میںٹرانسپورٹیشن کا نظام ناقص ہے‘ اگر صحیح انتظام ہو جائے ‘اس مسئلے پر سنجیدگی سے نظر ثانی کی جائے تو میں سمجھتی ہوں کہ اس سے بڑا عمل ہمارے لیے کچھ نہیں ہوگا ‘ہمارے رویوں میں تبدیلی صرف عورت کو نہیں لانی مرد حضرات کو بھی اس سلسلے میں رویے تبدیل کرنا ہونگے۔عمارہ، طارق کا کہنا تھا کہ طالبات اور ورکنگ ویمن کے سفر میں حائل مشکلات کے حل کے لیے چند اقدامات کیے جا سکتے ہیں ‘ ایسے تعلیمی اور پیشہ ورانہ پروگرامز فراہم کیے جائیں جو خواتین کی مہارتوں کو بڑھانے میں مددگار ہوں۔ عوامی ٹرانسپورٹ میں بہتری، سیکورٹی اقدامات خصوصاً عوامی مقامات اور دفاتر میں‘خواتین کیلیے ان کے حقوق کیلیے آگاہی مہم۔ان اقدامات سے خواتین کو اپنے سفر میں حائل مشکلات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔اس رپورٹ میں خواتین کے سفری مسائل، سماجی رکاوٹیں اور ٹرانسپورٹ کی کمی کو اجاگر کیا گیا ہے، اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کرے تاکہ خواتین اپنی ملازمتوں اور کاروبار کو بغیر کسی پریشانی کے جاری رکھ سکیں۔ ورکنگ خواتین کو ملازمت کے سلسلے میں سفر کے دوران کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سب سے بڑی مشکل پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی اور اس دوران سیکورٹی کے مسائل ہیں۔ خواتین کو محفوظ طریقے سے اپنے دفاتر یا کام کی جگہوں تک پہنچنے کے لیے نہ صرف بسوں کی کمی کا سامنا ہوتا ہے بلکہ وہ بسوں میں جگہ کی کمی، رش اور غیر محفوظ ماحول کا بھی شکار ہوتی ہیں، رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ خواتین کو اکثر رات کے وقت کام سے واپسی پر خطرات کا سامنا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اضافی کرایہ ادا کرنے پر مجبور ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ ہراسگی اور سیکیورٹی کے مسائل پیش آتے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں حکومت کو فوری اور جامع اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو ٹرانسپورٹ اور سیکیورٹی کے مسائل سے نجات مل سکے۔