امریکا اور کینیڈا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک اور بھارتی کوشش

212

بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے “را” کے سابق افسر وکاش یادو کو دہلی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ یہ گرفتاری دو دن قبل کی گئی۔ وکاش یادو کے وکیل آر کے ہینڈو نے بتایا ہے کہ پولیس اب تک بتا نہیں رہی کہ وکاش یادو کو کہاں رکھا گیا ہے۔

بھارتی حکومت نے دو دن قبل امریکا اس گرفتاری کے حوالے سے اپ ڈیٹ بھی کردیا تھا اور امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بھی یومیہ پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ امریکا کو مطلب وکاش یادو کو بھارتی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے اور اس حوالے سے حکومتی سطح پر نوٹیفائی بھی کیا ہے۔

وکاش یادو اور نکھل گپتا پر امریکی محکمہ انصاف نے دو دن قبل فردِ جرم عائد کی تھی۔ ان پر سنگین الزامات ہیں جن میں سب سے بڑا الزام امریکا اور کینیڈا کی شہریت کے حامل خالصتان نواز سکھ لیڈر گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کا ہے۔

گرپتونت سنگھ پنوں کو وکاش یادو اور نکھل گپتا نے گزشتہ برس نیو یارک میں قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی اور اس حوالے سے کرائے کے قاتل کا اہتمام بھی کیا تھا۔ جس سفید فام امریکی باشندے کی خدمات کرائے کے قاتل کے طور پر حاصل کی گئی تھیں اُسے پندرہ ہزار ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی بھی کردی گئی تھی۔

بھارتی باشندوں کی بدقسمتی کہ یہ سفید فام امریکی خفیہ اداروں کا مخبر اور ایجنٹ نکلا اور اس نے اس سازش کے بارے میں اپنے بڑوں کو بتادیا۔ اس انکشاف پر امریکی خفیہ اداروں نے فوری اقدام کرتے ہوئے نکھل گپتا کو گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ نکھل گپتا چیک جمہوریہ بھاگ گیا۔ امریکی حکام نے چیک جمہوریہ کے حکام سے رابطہ کرکے اُسے گرفتار کروایا اور اب اُسے امریکا لایا جاچکا ہے۔

وکاش یادو کے بارے میں امریکی حکام کو معلوم ہوچکا تھا کہ وہ بھارتی خفیہ ادارے کا افسر ہے اور ممکنہ طور پر اُسے اعلیٰ سطح سے گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ یہ معاملہ ایک مرحلے پر اتنا بگڑ گیا تھا کہ بھارتی حکومت نے اپنی گردن بچانے کے لیے وکاش یادو کے ساتھ ساتھ “را” کے سربراہ کی بھی قربانی دینے کا سوچ لیا تھا۔ بھارتی حکومت یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کے پیچھے وہ نہیں بلکہ “را” کے سربراہ نے یہ کام اپنے طور پر کیا اور بڑوں کو آن بورڈ نہیں لیا۔

جب “را” کے سربراہ کو قربانی کا بکرا بنانے کی بات چلی تو خفیہ ادارے میں ہلچل مچی اور مودی سرکار خبردار کردیا گیا کہ ایسا کچھ بھی کیا گیا تو شدید ردِعمل سامنے آئے گا۔ مودی سرکار نے “را” کے سربراہ کا قربانی کا بکرا بنانے کا خیال تو ترک کردیا تاہم امریکا اور کینیڈا کو مطمئن نہ کرسکی۔

امریکی تفتیش کاروں نے کینیڈین حکام کے ساتھ مل کر معاملات کو آگے بڑھایا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کی سازش بھارتی سرزمین پر تیار کی گئی تھی اور اس سلسلے میں فنڈنگ بھی کی گئی۔ وکاش یادو پر سکھ لیڈر کو قتل کرنے کی سازش تیار کرنے کے ساتھ ساتھ منی لانڈرنگ کا الزام بھی عائد کیا گیا۔

مودی سرکار امریکا اور کینیڈا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش سے اب بھی باز نہیں آئی۔ دہلی پولیس نے وکاش یادو کو گرفتار کرکے امریکا کو اطلاع تو دے دی مگر یہ نہیں بتایا کہ اُس کی گرفتاری امریکی محکمہ انصاف کی فردِ جرم کے نتیجے میں یا اُس کی بنیاد پر نہیں کی گئی بلکہ ایک پرانے کیس کی بنیاد پر کی گئی۔ دہلی پولیس نے مقامی عدالت میں جمع کرائے جانے والے چالان اور دیگر کاغذات میں بتایا ہے کہ دہلی کے ایک بزنس مین نے وکاش یادو اور اُس کے ایک ساتھی کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی تھی کہ اُسے اغوا کرکے مارا پیٹا گیا اور تاوان بھی وصول کیا گیا۔ دہلی پولیس نے اس سلسلے میں فروری 2024 کی شکایت کا حوالہ دیا ہے۔

مودی سرکار نے وکاش یادو کو گرفتار ضرور کیا ہے مگر امریکا کو یہ نہیں بتایا کہ یہ گرفتاری کس سلسلے میں کی گئی ہے۔ اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ دہلی پولیس وکاش یادو کو گرفتار کرکے دراصل محفوظ راہداری دے رہی ہے۔ اگر امریکا اُس کی حوالگی کا مطالبہ بھی کرے تو یہ کہا جاسکے گا کہ اُس کی گرفتاری ایک پرانی شکایت کی بنیاد پر کی گئی ہے اس لیے فی الحال اُسے کی حوالگی ممکن نہیں۔

گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کے حوالے سے امریکا اور کینیڈا کے خفیہ ادارے طویل مدت تک مل کر کام کرتے رہے ہیں۔ کینیڈا نے اس حوالے سے بھارت سے بارہا بات کی ہے مگر کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا کیونکہ مودی سرکار خود گڑبڑائی ہوئی ہے۔ اس کیس کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان خاصی کشیدگی پیدا ہوچکی ہے۔ گزشتہ برس بھی دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے سفارت کار نکال دیے تھے اور اس بات بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

قتل کی اس سازش کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس کینیڈین سرزمین پر سکھ لیڈر ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے حوالے سے بھی کی جانے والی تفتیش میں کینیڈا میں بھارتی ہائی کمشنر سنجے کمار ورما اور چند دوسرے سفارت کاروں کو بھی پرسنز آف انٹریسٹ قرار دیا گیا ہے۔ تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ بھارتی ہائی کمشنر اور چند دیگر سفارت اس پورے معاملے میں ملوث پائے گئے گئے ہیں اس لیے اُن سے تفتیش کی جانی چاہیے۔

مودی سرکار نے جب یہ دیکھا کہ سنجے کمار ورما سے تفتیش کی جاسکتی ہے تو اُس نے واویلا کرتے ہوئے اُسے وطن واپس آنے کا حکم دیا مگر اِس سے قبل ہی کینیڈین حکومت نے سنجے کمار ورما کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک سے نکل جانے کا حکم دیا۔ یہی حکم چند دوسرے سینیر سفارت کاروں کو دیا گیا ہے۔

ہفتے کو کینیڈین وزیرِخارجہ میلونی جولی نے وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی سفارت کاروں کو دیے جانے والے نوٹس برقرار ہیں۔ کسی بھی ایسے فرد کو کینیڈا میں برداشت نہیں کیا جاسکتا جس کے باعث مقامی باشندوں کی سیکیورٹی خطرے میں پڑتی ہو۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب کینیڈا کہاں تک جاسکتا ہے مگر دوسری طرف مودی سرکار اب بھی امریکا اور کینیڈا کی حکومتوں کو بے وقوف سمجھنے اور دھوکا دینے پر تُلی ہوئی ہے۔ وکاش یادو کی حوالگی بھارتی قیادت کے لیے بہت بڑا امتحان ہوگی۔ اگر امریکا کسی طور وکاش یادو کی حوالگی لینے میں کامیاب ہوگیا اور اُس سے کچھ اگلوالیا تو مودی سرکار کو عالمی سطح پر انتہائی درجے کی سُبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔