کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ کے پیاروں میں سے کوئی بستر مرگ پر ہو اور آپ اس پریشانی کا مداوا کرنے کے لیے بجائے اس کے کہ مرض کے تدارک کے لیے کسی مزید علاج کی سوچیں آپ کسی تھیٹر میں جاکر کہانیوں، موسیقی، ڈانس اور ٹھمکے کی دنیا میں غرق ہو جائیں۔آئے دن کے دہشت گردی کے واقعات، سیاستدانوں کی باہم سر پھٹول، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے حالات میں مملکت پاکستان بھی ایک بستر مرگ پر پڑے مریض سے متشابہ ہے اور ہمیں بحیثیت قوم کہانیوں، ڈانس اور موسیقی کی دنیا میں گم کر دیا گیا ہے، اگر یقین نہیں تو اس خبر پر نظر ڈال لیجیے؛ معاصر جریدہ روزنامہ ایکسپریس مورخہ 17 اگست کی خبر کے مطابق آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ’’ورلڈ کلچر فیسٹیول کراچی‘‘ کے حوالے سے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے ورلڈ کلچرل فیسٹیول 26 ستمبر تا 30 اکتوبر 2024 کے انعقاد کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم نے بین الاقوامی طور پر سفارت خانوں اور فنکاروں سے رابطہ کرنا شروع کیا تو بہت سارے میوزک اور ڈانس کے فنکاروں نے بھی ہم سے رابطہ کیا، اس لیے اس کا نام ورلڈ کلچر فیسٹیول رکھا۔ اس فیسٹیول میں 40 ممالک کے فنکار و اداکار آرٹس کونسل آف پاکستان میں پرفارم کریں گے۔ انہوں نے بین الاقوامی طور پر تمام آرٹسٹ کے ساتھ مل کر ایک یونیورسل میوزک تخلیق کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ ہم عوام کو 35 دن بھرپور طریقے سے خوشی دینا چاہتے‘‘۔ اس موقع پر معروف مزاح نگار انور مقصود نے کہاکہ ’’علامہ اقبال نے بھی ایک خواب دیکھا تھا ایک خواب احمد شاہ نے دیکھا ہے، پینتیس ملکوں کو ایک جگہ جمع کرنا ایک خواب ہی ہے جسے احمد شاہ پورا کر رہے ہیں یہ پروگرام تو ضرور کامیاب ہو گا، ان حالات میں 77 سال سے ہم خوش نہیں ہیں، شاید اس فیسٹیول سے ہمیں خوشی ملے، ایک بات کی خوشی ہے کہ جے پور اور بمبئی سے گروپ آرہے ہیں‘‘۔
انور مقصود کا مزاح کی دنیا میں تو نام تھا ہی لیکن سوشل میڈیا کی دنیا میں اب ایک ایسے دانشور کے طور سے متعارف ہوئے ہیں کہ لوگ ان کی کہی ہوئی کچھ باتیں ’’کوٹ‘‘ کرنے لگے ہیں۔ علامہ اقبال اگر حیات ہوتے تو انہیں اپنا خاصا وقت ضرور انور مقصود کو اپنے ’’خواب‘‘ اور کلام کی وضاحت میں صرف کرنا پڑتا۔ انور مقصود اگر سنجیدگی سے اپنی ہی کہی ہوئی بات کا غَائِر نَظَری سے جائزہ لیں تو انہیں احساس ہوگا کہ اقبال کا خواب ایک اسلامی ریاست اور ’’وہی جواں ہے قبیلہ کی آنکھ کا تارا۔ شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری‘‘ کے مصداق ان کے پاس ایک ’’جواں‘‘ اور ’’مرد مومن‘‘ کا تصور ہے جب کہ ورلڈ کلچر ایونٹ میں ناچ گانے اور لغویات ہیں، شاید اسی لیے اقبال نے کہا تھا ’’اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے‘‘۔
علامہ اقبال تو امت مسلمہ کو کھویا ہوا مقام دلانے کی جستجو میں نظر آتے ہیں، اقبال کا ’’جواں‘‘ اور ’’مرد مومن‘‘ جس ثقافت کا امین ہے وہ شرک سے اجتناب، بہادری، جرأت، حکمت، حیا، غض ِ بصر، دانش مندی جیسے اوصاف سے مالا مال ہے۔ اگر دیکھا جائے تو احکام قرآنی جس میں مسلم بیبیوں کا دبی زبان میں نامحرم سے بات کرنا، سینوں پر اوڑھنیاں ڈالنا، ساتر لباس، عہد و پیماں، فضول خرچی اور بخل سے پرہیز، اعتدال کی راہ اور رویہ، خواہش نفس کو خدا نہ بنانا، علم کا حصول ہی عین اسلامی ثقافت ہے، اسی آئینہ میں دین و دنیا کی ترقی کا امتزاج اور مسلمانوں کا عظیم الشان ماضی بھی ہے۔ رسول اللہ نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی میں لانے اور کفر و الحاد سے لا تعلقی، کھلے و چھپے فواحش اور گانے بجانے اور لغویات سے اجتناب کا حکم دیا تھا۔ ورلڈ کلچرل ایونٹ میں ایک بڑی تعداد میں ممالک جس ثقافت کی یلغار کے مشن پر آئے ہیں، بقول انور مقصود بمبئی اور جے پور سے جس ہندوستانی ثقافت کے وارد ہونے کی خوشخبری انہوں نے سنائی ہے، اس حوالے سے تو سر فہرست بتوں کی پوجا، گائے اور اس کا پیشاب اور ناچ گانے کے علاوہ ہندوستان کی کوئی اور ثقافت ہو جس کی تعریف و توصیف ایک مسلمان کو زیب دیتی ہو تو اس کی نشاندہی کر دی جائے۔ اسی موسیقی، ناچ گانے کا پرتو بِلا کسی مذمتی رویہ اور احساس کے پاکستانی سیاست میں رواج پا چکا ہے۔
ورلڈ کلچر فیسٹیول جو آب و تاب سے جاری ہے اس کے پس پردہ جو مقاصد ہیں معاشرے کا باشعور طبقہ ان حقائق کا ادراک کرے۔ بحیثیت پاکستانی اس کیفیت کو محسوس کرنے کے لیے دیکھیے کہ جہاں کل آبادی کی اکثریتی تعداد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے اور بنیادی ضروریات تک سے محروم ہے، 13 کروڑ لوگ دو وقت کے کھانے سے محروم ہیں، تعلیم اور علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، مزدور طبقے کے تین کروڑ ستر لاکھ بچے (5 سے 15سال عمر کے) تعلیمی اداروں سے باہر ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 35 روز تک جاری رہنے والے اس ثقافتی پروگرام کی آڑ میں بے حیائی کا رنگ و طوفان دیکھنے سے من حیث القوم ہمیں کیا خوشی میسر ہو رہی ہے؟
بادی النظر میں یہ اور اس طرز کے دیگر فیسٹیول وغیرہ کی آڑ میں اسلامی ثقافت سے ماوراء اور متصادم ذہنیت جو پاکستان میں ایک خاص طبقہ میں پروان چڑھ چکی ہے اور اپنا دائرہ کار غیر محسوس طریقے سے آہستہ آہستہ وسیع کر رہی ہے اسے مزید پختہ اور نڈر کرنا ہے۔ اگر معاملہ یہاں پر نہیں رکے گا تو پھر مزید کسی چیز کی کسر باقی نہیں رہے گی جو مجموعی طور سے ہمارے اس چلن کو مغربی معاشرے سے ممیز کر سکے۔ اس صورتحال کے ممکنہ نتائج کی ہولناکی کا ذرا بھی ادراک اگر ہمیں ہے تو ابھی کوشش کرکے شاید معاملات ہمارے قابو میں آجائیں اور ظاہر ہے کہ یہ کام حکومتی سطح پر ہی موثر ہو سکتا ہے، بصورت دیگر معاشرہ میں ٹکراؤ اور تصادم کی صورت حال رونما ہوتی ہے اور معاشرہ تقسیم در تقسیم ہی کی طرف جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ معاشرہ میں دعوت، تبلیغ اور اصلاح کا، کار خیر انجام دینے والے عناصر کا اس صورتحال پر خاموش اور بے حسی کا رویہ، الحاد کے فروغ پر مْصِر بے دین عناصر کی حوصلہ افزائی کا سبب بھی ہے۔ اسلامی معاشرت کے مقابلے میں مغربی اقدار کے دلدادہ لیکن حقیقت میں ان کے تنخواہ بردار ایجنٹ، جنہوں نے معاشرے میں خاص مقاصد اور مغربی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بہروپ بھرے ہوئے ہیں، پاکستانی معاشرہ میں عورت کی آزادی کے نام پر عورت کا استحصال بھی کر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ مغربی اقدار کو مسلط بھی کر رہے ہیں۔
زیادہ دیکھے جانے والے ٹیلی وژن چینلوں کے مزاحیہ پروگرام ہوں یا ان میں حیا سے عاری ذو معنی گفتگو، مسلسل درجہ بدرجہ عریانی فحاشی کی طرف بڑھتے ہوئے ٹی وی اشتہارات کے رجحان کو معاشرہ میں ایسے ہی درجہ قبولیت نہیں مل گیا ہے؛ یہ آہستہ آہستہ مرحلہ وار ہوا ہے اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے۔ اخبارات اور رسائل میں ان حالات کا نوحہ نہ حالات کو تبدیل کر سکتا ہے اور نہ لوگوں کی سوچ بدل سکتا ہے۔ ان حقائق کا اگر سنجیدگی سے تجزیہ کریں تو اس سب کا سبب احکام قرآن سے روگردانی ہے جو ان برائیوں کے سد باب کی جڑ ہے۔ قرآن مجید میں ’’سورہ ابراہیم۔آیات 24-26‘‘ شجر طیبہ اور شجر خبیثہ کی مثال دی گئی ہے، جب تک ہمارے معاشرہ سے شجر خبیثہ جڑ سے نہیں اکھاڑ پھینکا جائے گا یہ برگ و بار لاتا رہے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے نظام تعلیم اور تعلیمی اداروں، سیاسی پارٹیوں، سماجی انجمنوں، حکومتی اداروں، سول سپیریئر سروسز، پولیس اور عسکری اداروں کے لیے مرحلہ وار تربیت کے ذریعہ درست رجحانات اور احکام قرآنی کے تابع اسلامی ثقافت کا شعور اجاگر کیا جائے۔ حالات کا ادراک اور مسئلہ کا دانش مندانہ تدارک وقت کی ضرورت ہے، یہ قرض بھی ہے اور فرض بھی۔
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے