بچوں کے بغیر خوش گوار ازدواجی زندگی

341

انسان کو اس زندگی میں حقیقی مسرت اور سکون کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔ (الذریات: 56) انسان کا جو مقصد وجود ہے اسے‘ اسی کو اپنا نصب العین اور مقصد وجود بنانا چاہیے‘ اسی کی خاطر دوڑ دھوپ ہونی چاہیے۔ اس میں اگر انسان مصروف ہو‘ اس کا حق ادا کر رہا ہو‘ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کر رہا ہو‘ فرائض ادا اور منکرات سے اجتناب کر رہا ہو‘ تو ایسا انسان مطمئن اور خوش ہوتا ہے۔ انسان سکون و اطمینان اور خوشی کی زندگی اسی صورت میں گزارتا ہے‘ جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر و عبادت اور طاعت و فرماں برداری میں زندگی گزارے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ ہو وہ مومن‘ اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اْن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔ (النحل: 97) اور یہ بھی فرمایا: ’’اور جو میرے ’’ذکر‘‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اْس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اْسے اندھا اٹھائیں گے‘‘۔ (طٰہٰ: 124)
معلوم ہوا کہ حقیقی مسرت ذکر الٰہی‘ اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا پر راضی رہنے سے ہے۔ مال و دولت‘ منصب اور اقتدار آدمی کے لیے سکون و اطمینان کا ذریعہ نہیں۔ یہ سامان راحت تو ہیں لیکن عین راحت نہیں۔

ایک مسلمان مرد یا عورت جب بالغ ہو جائیں تو انھیں ازدواجی زندگی اختیار کرنا چاہیے۔ یہ ایسی صورت میں فرض ہے جب اس کے بغیر گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو۔ اگر ایسا کوئی خطرہ نہ ہو‘ لیکن حاجت اور استطاعت ہو‘ تو پھر ازدواجی زندگی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور تلاش کرو اسے جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے‘‘۔ (البقرہ: 187) اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی نسل کے بقا کے لیے نکاح کو ذریعہ بنایا ہے۔ نکاح اور ازدواجی زندگی کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کے اس تکوینی نظام میں اپنا حصہ ادا کرتا ہے جو اس نے نوع انسانی کی بقا کے لیے مقرر کیا ہے۔ نکاح کے نظام سے ایک طرف انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر اولاد کو جسے ما کتب اللہ لکم ’’جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے‘‘، کے جملے سے بیان کیا گیا ہے‘ حاصل کرنے کے لیے تدبیر کرتا ہے‘ یعنی اولاد حاصل کرنے کی کوشش اور وسیلہ اختیار کرتا ہے‘ اور دوسری طرف نوع انسانی کی بقا میں مددگار و معاون بنتا ہے۔ اس لیے یہ عبادت بھی ہے اور تحصیل اولاد کا ذریعہ بھی۔ ما کتب اللہ لکم کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد مقدر کی ہوگی تو اس تدبیر کے ذریعے مل جائے گی ‘ ورنہ نہیں ملے گی۔

اس لیے انسان محض شہوت رانی کی نیت سے نکاح نہ کرے بلکہ مستقل طور پر رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے اور زندگی کا رفیق اور رفیقہ بنانے اور اولاد صالحہ کے حصول کی نیت کرے۔ اگر اولاد کی نعمت حاصل ہو جائے تو اللہ کا شکر ادا کرے‘ نہ ملے تو راضی برضا رہے‘ صبر کو وظیفہ بنائے۔ بہت سے انبیا ایسے گزرے ہیں جو طویل زندگی میں لااولاد رہے۔ آخری عمر میں اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد دی‘ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام‘ حضرت زکریا علیہ السلام ‘ اور بعض کو بیٹیوں کے ساتھ نرینہ اولاد ملی لیکن فوت ہوگئی‘ جیسے نبیؐ۔ اور بہت سے وہ گزرے ہیں جن کو نکاح کا موقع نہیں ملا ‘جیسے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام‘ اور جیسے ’’مدین کے بزرگ‘‘۔ بعض اولاد سے محروم رہے۔ بہت سے آئمہ اور نیک خواتین کو بھی اس کا موقع نہیں ملا‘ جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور رابعہ بصریؒ‘ لیکن ان کی زندگی انتہائی خوش گوار ‘ پرْسکون اور اطمینان والی تھی۔
پس اولاد کے بغیر بھی آدمی خوش گوار زندگی بسر کرسکتا ہے‘ جب کہ اللہ کی بندگی اور ذکر میں مشغول ہو۔ اولاد بعض اوقات آدمی کے لیے سکون و اطمینان کے بجائے فتنہ بن جاتی ہے اور ماں باپ کی نافرمان ہوتی ہے۔ آج کل تو بے شمار واقعات ایسے سامنے آتے ہیں کہ اولاد ماں باپ کو قتل کر دیتی ہے یا چوری‘ ڈکیتی‘ دہشت گردی یا نشے میں مبتلا ہو کر ماں باپ کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہے۔ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہم السلام کا واقعہ آیا ہے۔ اس میں حضرت خضر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک ایسے بیٹے کو قتل کر دیتے ہیں جس سے خطرہ تھا کہ وہ بالغ ہونے کے بعد ماں باپ کو اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر تنگ کرے گا۔

مسلمان معاشرے میں رہتے ہوئے ایک انسان تنہائی محسوس نہیں کرتا۔ یتیم کو باپ کے بدلے میں باپ‘ بھائی سے محروم کو بھائی کے بدلے میں بھائی‘ اور اولاد سے محروم کو اولاد کے بدلے میں اولاد (عزیزوں‘ بہن بھائیوں کی اولاد) میسر ہو جاتی ہے۔ چونکہ ’’ایمان والے آپس میں بھائی ہیں‘‘ اور ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘‘۔ اس لیے اولاد کے بغیر خوش گوار زندگی کا سامان اللہ کی بندگی‘ صبر اور اہل ایمان سے بھائی چارے کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین