قیادت کے تقاضے

226

یقیناً اللہ سبحانہ وتعالیٰ اِس بات پر قادر تھا کہ اپنے نبی‘ اپنی دعوت‘ اپنے دین اور اپنے نظامِ زندگی کو پہلے ہی لمحے فتح و نصرت سے نواز دیتا‘ بغیر اس کے کہ اہل ایمان کوئی جدوجہد کرتے اور مشقت برداشت کرتے۔ وہ اِس بات پر بھی قادر تھا کہ فرشتے نازل فرما دیتا‘ جو اہل ایمان کے ساتھ مل کر یا اْن کے بغیر جنگ کرتے اور مشرکین کو اسی طرح ہلاک کر دیتے جس طرح کہ انھوں نے قومِ عاد‘ قومِ ثمود اور قومِ لوط کو ہلاک کر دیا تھا۔
مسئلہ فتح و نصرت کا نہیں‘ اْمتِ مسلمہ کی تربیت کا تھا‘ جو اِس لیے تیار کی جا رہی تھی کہ اسے انسانیت کی قیادت سونپی جائے۔ انسانیت کی‘ اْس کی تمام کمزوریوں اور نقائص کے ساتھ‘ اس کی تمام خواہشات و جذبات کے ساتھ اور اس کی تمام جاہلیتوں اور کج رویوں کے ساتھ‘ قیادت! اور قیادت بھی‘ حق و رْشد کی قیادت! یہ قیادتِ راشدہ اِس بات کی متقاضی تھی کہ قائدین اعلیٰ استعداد کے حامل ہوں۔ اِس قیادت کا اوّلین تقاضا ہے کردار کی مضبوطی و صلابت‘ حق پر ثبات و استقامت‘ مصائب و مشکلات پر صبر‘ (نیز) انسانی نفوس میں ضعف اور قوت کے مواقع کی معرفت اور لغزشوں کے مواقع اور کج روی و انحراف کے محرکات اور اْن کے علاج کے ذرائع و وسائل سے آگاہی۔ پھر شدید حالات پر صبر کی طرح حالات کی فراخی و سہولت پر بھی صبر۔ اسی طرح حالات کی سہولت و فراخی کے بعد شدید حالات پر صبر‘ جب کہ اْن کا مزا حد درجہ تلخ ہو۔

یہ ہے اللہ تعالیٰ کی‘ اِس اْمت کے لیے تربیت۔ اللہ تعالیٰ اِس تربیت کے ساتھ اِس اْمت کا‘ جب کہ وہ اْسے قیادت کی کنجیاں سونپنے کا اِذن دیتا ہے‘ ہاتھ پکڑ کر اْسے آگے بڑھاتا ہے‘ تاکہ اِس تربیت کے ذریعے اْس عظیم اور پْرمشقت رول کی ادایگی کے لیے‘ جو زمین میں اِس اْمت سے متعلق کیا گیا ہے‘ اِس اْمت کو تیار کرے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ رول اْس ’’انسان‘‘ کے حصے میں آئے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے اِس وسیع و عریض دنیا میں اپنا خلیفہ بنایا ہے۔
انسانیت کی قیادت کے لیے اْمت مسلمہ کی تیاری کا خدائی منصوبہ مختلف اسباب و وسائل اور مختلف حالات و واقعات کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ کبھی یہ منصوبہ اِس طرح بروے کار آتا ہے کہ اْمت مسلمہ کو قطعی اور فیصلہ کْن فتح ہوتی ہے‘ اِس سے وہ خوش خبری پاتی ہے‘ اور اللہ کی مدد کے زیرسایہ اْس کا‘ اپنی ذات پر اعتماد بڑھتا ہے‘ فتح ونصرت کی لذت کا اْسے تجربہ ہوتا ہے‘ فتح کے نشے کے مقابلے میں وہ صبر کا رویہ اختیار کرتی ہے اور اتراہٹ ‘ خود پسندی اور فخر وغرور پر قابو پانے کی‘ اپنی صلاحیت و قوت کا‘ اْسے تجربہ ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ اسے اِس بات کا بھی تجربہ ہوتا ہے کہ وہ کس درجہ اِس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتی اور تواضع کے ساتھ اْس کے آگے جھکتی ہے۔ اور کبھی خداے تعالیٰ کا یہ منصوبہ اْمت کی شکست اور مصائب و آلام میں اس کے مبتلا ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس صورت میں وہ اللہ کا دامن پکڑتی اور اس کی پناہ میں آتی ہے۔ اْسے اپنی ذاتی قوت کی حقیقت اور اپنی کمزوری و ناتوانی کا… جب خدائی نظامِ زندگی سے ادنیٰ انحراف کرتی ہے… بخوبی علم ہو جاتا ہے اور اسے شکست کی تلخی کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہ باطل کے مقابلے میں سربلند رہتی ہے‘ کیونکہ اس کے پاس خالص حق ہے اور اْسے اپنے نقائص اور اپنی کمزوریوں اور ان کے مواقع اور اپنی خواہشات کی دراندازی اور اپنے قدموں کی لغزشوں کے مواقع کا علم ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ اِس بات کی پوری کوشش کرتی ہے کہ وہ اِن سب کمزوریوں اور لغزشوں سے خود کو پاک کرکے اگلے حملے میں شریک ہو اور فتح و نصرت اور شکست و ہزیمت‘ دونوں سے اپنے لیے زادِ راہ اور سازوسامان حاصل کر کے لوٹے… اس طرح اللہ کا منصوبہ‘ اْس کی اٹل سنت کے مطابق‘ جس میں کبھی تخلّف نہیں ہوتا‘ پورا ہوتا ہے۔

’’کتنی عجیب و غریب ہے قرآنِ مجید کی بیان کردہ یہ حقیقت! غزوئہ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی مگر اْس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ کفر کا زور ختم کر دے گا۔ کیسے؟ اہلِ ایمان کو اپنی کمزوریوں کا علم ہوگا اور وہ اللہ کی توفیق اور رسول کی تربیت کے نتیجے میں پاک صاف اور پختہ تر ہوکر ازسرِنو حق کے غلبے کے لیے اْٹھ کھڑے ہوں گے۔ جب ایسا ہوگا تو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ہاتھوں اہل کفر کا زور توڑ دے گا… غزوئہ احد کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ مسلسل پورا ہوا‘ یہاں تک کہ سات آٹھ سال کے عرصے میں مشرکین کا زور بالکل ٹوٹ گیا‘ پورا عرب اسلام کے زیرنگیں ہوگیا اور اس کے بعد 20‘ 25 سال کے عرصے میں قیصر وکسریٰ کی عظیم طاقتیں سرنگوں ہو گئیں اور گردوپیش کے بہت سے ممالک پر انھی اہل ایمان کے ہاتھوں اسلام کا پرچم لہرانے لگا‘‘
(ترجمہ: سیدحامد علی، تدوین: امجد عباسی)