شنگھائی کانفرنس، پی ٹی آئی کی کال اور آئینی ترامیم

308

آج پندرہ اکتوبر کو جب ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں تو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس منعقد ہورہا ہے جس میں شرکت کے لیے رکن ملکوں کے وفود وفاقی دارالحکومت پہنچ چکے ہیں۔ حکومت (جو ہیئت مقتدرہ کا ہی دوسرا نام ہے) نے اس عالمی تقریب کو پُرسکون اور کامیاب بنانے کے لیے فول پروف حفاظتی انتظامات کیے ہیں۔ اسلام آباد اور اس سے جڑواں شہر راولپنڈی میں تین روز کے لیے تمام سرکاری و غیر سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز، عدالتیں اور عوام کی آمدو رفت کے دیگر مقامات بند کردیے گئے ہیں۔ راولپنڈی میں تو پھر بھی کچھ چہل پہل ہے لیکن اسلام آباد پوری طرح کنٹینروں کے حصار میں ہے۔ اسلام آباد کو جانے والے تمام راستے بند ہیں۔ نہ کوئی شخص اسلام آباد میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ وہاں سے باہر آسکتا ہے۔ پاکستان کے برعکس دوسرے ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا وہاں جب کسی شہر میں کوئی عالمی تقریب منعقد ہوتی ہے تو اس شہر میں جشن کا سماں ہوتا ہے، پورے شہر کو خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے اور عوام سڑکوں پر نکل کر غیر ملکی مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے یہ کڑا پہرہ اس لیے بھی لگایا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے عین عالمی سربراہ اجلاس کے موقع پر ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کی کال دے رکھی تھی اس کا مطالبہ تھا کہ تحریک انصاف کے بانی قائد عمران خان سے ان کے ساتھیوں کی ملاقات کرائی جائے اور ان کا ڈاکٹری معائنہ کرایا جائے کیونکہ یہ افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ عمران خان پر تشدد کیا گیا ہے اور ان کی حالت غیر تسلی بخش ہے۔ حکومت اس بات پر ڈٹی ہوئی تھی کہ وہ پی ٹی آئی کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی وہ راولپنڈی، اسلام آباد میں گھروں میں چھاپے مار کر پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گرفتار بھی کررہی تھی، اس سے یہ شبہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں واقعی پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حکومتی مشینری کے درمیان تصادم نہ ہوجائے اور عالمی سربراہ کانفرنس کی خبروں کے بجائے میڈیا میں تصادم کی خبریں نہ اہمیت اختیار کرجائیں۔ اسلام آباد ویسے بھی اِس وقت فوج کی تحویل میں ہے اور یہ تصادم خطرناک ہوسکتا تھا۔

چنانچہ اصل حکمرانوں نے عقل مندی کا مظاہرہ کیا اور عمران خان سے ملاقات کرانے کا مطالبہ مان لیا لیکن یہ ملاقات ڈاکٹروں کی طبی معائنے کی صورت میں تھی، وکیلوں یا کسی سیاسی شخصیت کو ملاقات کی اجازت نہ تھی۔ گویا ادھورا مطالبہ مانا گیا تھا اس کے باوجود پی ٹی آئی کی قیادت نے بُردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج کی کال موخر کردی اور خطرہ ٹل گیا۔ عمران خان کا طبی معائنہ سرکاری اسپتال ’’پمز‘‘ کے ڈاکٹر کریں گے جو کسی قسم کا بیان دینے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ وہ اپنی رپورٹ ’’مجاز اتھارٹی‘‘ کو پیش کریں گے یہ مجاز اتھارٹی کون ہے ہم اس کے بارے میں کوئی رائے زنی نہیں کرسکے۔ (آخری اطلاع یہی ہے کہ طبی معائنہ نہیں ہوسکا) دوسری طرف آئینی ترامیم کا معاملہ بھی بدستور اُلجھا ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے آئینی ترامیم کے سرکاری مسودے کے مقابلے میں اپنی تجاویز بھی پیش کردی ہیں۔ جن میں مجوزہ آئینی عدالت کی جگہ آئینی بنچ کا ذکر ہے۔ جبکہ مقتدرہ اور موجودہ جعلی حکمرانوں کی جان اسی ’’توتے‘‘ میں ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر سرکاری عشائیہ قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، وجہ اس کی یہ بتائی ہے کہ اس پر بیس لاکھ روپے صرف ہوں گے، انہیں سرکار کے بیس لاکھ روپے کی فکر ہے لیکن جس آئینی عدالت کا انہیں سربراہ بنانے کی تجویز ہے اس کے قیام کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اور ارکان اسمبلی کی بولیاں کروڑوں سے نکل کر اربوں میں پہنچ گئی ہیں، لیکن قاضی صاحب کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے بلکہ وہ یہ سارا عمل بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ یہ عمل کامیابی سے ہمکنار ہو اور انہیں ایک بار پھر قوم کی خدمت کا موقع ملے۔ اگر انہیں یہ موقع نہ ملا تو پھر وہ پاکستان میں رہنا پسند نہیں کریں گے اور پہلی فرصت میں بیرون ملک چلے جائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر ہوائی ٹکٹ بھی خرید لیے ہیں۔

کہا تو یہی کہا جارہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے آئندہ چیف جسٹس جسٹس منصور علی شاہ ہی ہوں گے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحق ڈار نے بھی نہایت مایوسی کے عالم میں کہا ہے کہ ’’شاید منصور علی شاہ ہی چیف جسٹس بن جائیں‘‘ اس بیان سے جو مایوسی ٹپک رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس نہ بنانے کی درپردہ کوشش بھی عروج پر ہیں۔ آئینی ترامیم کے مطابق ضروری نہیں کہ سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس بنایا جائے بلکہ تین سینئر ججوں کے پینل میں سے کسی جج کو بھی چیف جسٹس بنایا جاسکتا ہے۔ آئینی ترامیم کی اس شق پر اتفاق رائے ہوگیا تو جسٹس منصور علی شاہ کا پتا صاف سمجھو۔ جہاں تک ’اتفاق رائے‘‘ کا معاملہ ہے تو مولانا فضل الرحمن نے بلاول زرداری سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ہم اتفاق رائے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ میاں نواز شریف سے بھی حضرت مولانا کی ملاقات طے ہے اس کے بعد اتفاق رائے کا عمل مکمل ہوجائے گا۔ کہا جارہا ہے کہ حضرت مولانا کی اس فراست کے اعتراف میں آصف زرداری منصب صدارت سے مستعفی ہوجائیں گے اور حضرت مولانا کو اتفاق رائے سے ملک کا صدر منتخب کرلیا جائے گا۔

بلاشبہ اتفاق رائے میں برکت ہے اور حضرت مولانا اس برکت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ جبکہ شہباز شریف کو بلاول زرداری کے لیے اپنا منصب خالی کرنا پڑے گا۔ شاید مریم نواز بھی برسراقتدار نہ رہ سکیں۔ سیاسی شطرنج کے اس کھیل میں شریف فیملی کو بُری طرح مات ہوگی اور میاں نواز شریف مایوس ہو کر لندن سدھار جائیں گے۔ میاں نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بننے کے لیے لندن سے پاکستان آئے تھے لیکن قسمت نے یاوری نہ کی اور انہیں بے نیل و مرام واپس جانا پڑا۔ سچ کہا ہے غالب نے

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں