اسلام اور مسلم تہذیب میں مہمان کی بڑی اہمیت ہے۔ ہمارا تصور یہ ہے کہ جو ہمارے گھر میں آیا وہ ہمارے دل میں آیا۔ چنانچہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ مہمانوں کی خاطر مدارت کرو اور انہیں تین دن تک خوش دلی کے ساتھ اپنے ساتھ رکھو۔ دنیا میں تقابل ادیان کے سب سے بڑے ماہر ڈاکٹر ذاکر نائیک بڑی محبت سے پاکستان تشریف لائے تھے مگر پنجاب کے معروف دانش ور اور صحافی ڈاکٹر ذاکر نائیک پہ بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے اور چند دنوں میں اپنے کالموں کی حد تک ان کا وہ حال کردیا کہ آدمی دیکھے تو عبرت پکڑے اور کبھی پاکستان میں مہمان بن کر آنے کی آرزو نہ کرے۔
محمد اظہار الحق پاکستان کے معروف شاعر، سابق بیورو کریٹ اور کالم نویس ہیں انہوں نے اپنے کالم کے ذریعے ڈاکٹر ذاکر نائیک پر حملوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنے کالم میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو نفسیاتی مریض یا Paranoia میں مبتلا شخص ثابت کرنے کی کوشش کی۔ دراصل ڈاکٹر ذاکر نائیک کو کسی یتیم خانے میں بلایا گیا تھا جہاں چودہ پندرہ سال کی لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ ڈاکٹر ذاکر نے ان لڑکیوں کے ساتھ تعامل سے انکار کردیا اور اسٹیج سے اُتر آئے۔ ٹیلی وژن کی ایک اینکر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے بات کرنے کے لیے آگے بڑھی تو ڈاکٹر صاحب نے اس کے انداز پر اعتراض کرتے ہوئے اس سے بھی بات نہیں کی۔ محمد اظہار الحق نے ان واقعات کی بنا پر ڈاکٹر صاحب کو دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کے جنون میں مبتلا قرار دیا۔ محمد اظہار الحق نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے دورئہ پاکستان کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ انہیں عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے پاکستان بلایا گیا تھا۔ محمد اظہار الحق نے اپنے کالم کا عنوان بھی تضحیک آمیز رکھا۔ یعنی واہ ڈاکٹر ذاکر نائیک! واہ!۔
خورشید ندیم جاوید احمد غامدی کے شاگرد اور ہمارے ممدوح ہیں۔ ہم نے ان کے کالموں میں اتنا لکھا ہے کہ ایک کتاب بن سکتی ہے۔ خورشید ندیم بھی محمد اظہار الحق کے ساتھ روزنامہ دنیا میں کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تشریف آوری کے عنوان سے کیا لکھا اس کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ غالب پہلو یہ ہے کہ وہ ایک مناظر ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کی شہرت دین کے ایک عالم کی ہے۔ تیسرا پہلو جس کا وہ خود دعویٰ کرتے ہیں، یہ ہے کہ وہ ایک داعی ہیں۔ ان تینوں حیثیتوں کے سماجی مطالبات ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ بعض حوالوں سے متضاد ہیں۔ ان تضادات سے ایک خلطِ مبحث پیدا ہوتا ہے جو سماج کو الجھا دیتا ہے۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب کا یہ دورہ بھی ان اُلجھنوں سے محفوظ نہیں رہ سکا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے جب ان تینوں باتوں کو جمع کرنا چاہا تو اس سے تینوں کے متضاد مطالبات سامنے آکھڑے ہوئے۔ یوں ان کا دورہ ایک ایسی بحث کا موضوع بن گیا جس نے یہ بنیادی سوال اُٹھادیا کہ ان کی اس تشریف آوری کا پاکستان یا اسلام کو کیا فائدہ ہوا؟ میرا احساس ہے کہ ان کی آمد سے معاشرے میں موجود مذہبی پراگندگی میں کوئی کمی نہیں آسکی۔ مسلکی عناصر کے ساتھ لبرل نقطہ نظر کے لوگوں کو بھی موقع ملا کہ وہ مذہب کی سماجی افادیت پر سوالات اٹھادیں۔ ایک طالبہ کے سوال پر ڈاکٹر صاحب کا جواب، ایک داعی کا نہیں، مناظر کا ردعمل تھا۔ دعوت کے پہلو سے سوال یہ ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کا جواب سائلہ کو اسلام کے قریب لانے کا باعث بنا ہے یا دور کرنے کا؟۔ یہ احساس ہوا کہ میڈیا میں یہ بحث افراط و تفریط کی نذر ہورہی ہے تو میں نے اس پر قلم اٹھایا۔ رہا سوال کہ ریاست کو اس دورے سے کیا ملا، اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ (روزنامہ دنیا۔ 10 اکتوبر 2024ء)
سہیل وڑائچ ٹی وی اور اخبار کی ممتاز شخصیت ہیں۔ وہ اورنگ زیب عالمگیرؒ اور داراشکوہ کی جنگ میں ہندو ازم کے پرستار داراشکوہ کے طرف دار ہیں۔ انہوں بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان آمد پر ایک کالم لکھ مارا۔ انہوں نے اپنے کالم میں احتیاطاً علما اور مشائخ کی تعریف کی ہے۔ لیکن انہوں نے بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ’’انہدام‘‘ کا فرض دل لگا کر ادا کیا ہے۔ انہوں نے ذاکر نائیک یا علامہ اقبال؟ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا۔
ایسے میں جب کہ غزہ اور لبنان میں تباہی پھیلی ہوئی ہے اور اسرائیل جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مسلم ممالک کو چن چن کر نشانہ بنا رہا ہے کیا ایسے میں حضرت ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پاکستان بلا کر ان مصائب سے نکلنے کا کوئی حل حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اگر آج مسلم اُمہ کے زوال کی وجہ ایمان کی خرابی ہے تو پھر حماس جیسے مذہب پر سختی سے کار بند لوگ ہی کیوں تباہ ہورہے ہیں؟ حزب اللہ جیسے کٹر مذہبی سپاہی ہی کیوں عذاب میں مبتلا ہیں؟ اس وقت عالم اسلام اور اُمہ کو دینی نہیں دنیاوی مسئلہ درپیش ہے۔ بالکل وہی صورت حال ہے جو غلام ہندوستان میں مسلمانوں کی تھی۔ دیوبند، بریلی، اہل حدیث اور شیعہ مکتب فکر کے بڑے بڑے اکابر ملت موجود تھے مگر مسلمانوں کے مسائل کا حل ڈاڑھی منڈے اقبال اور جدید تعلیم یافتہ مسٹر جناح نے دیا۔ آج بھی ہمیں کسی حضرت ڈاکٹر ذاکر نائیک کی نہیں بلکہ ایک نئے مسٹر جناح اور سر محمد اقبال کی ضرورت ہے، آج مناظرے کی ضرورت نہیں ہمیں تنازعے کا حل بتانے والے کی ضرورت ہے۔
حضرت ڈاکٹر ذاکر نائیک سے میرا نہ کوئی مذہب اختلاف ہے نہ مسلکی اور نہ ہی ذاتی بلکہ مجھے موقع ملا تو ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرکے ان سے ایمان اور آخرت کے حوالے سے کچھ سیکھنے کو سعادت سمجھوں گا مگر مسئلہ ٹائمنگ کا ہے۔ جنازے کے وقت عید کی نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔ اس وقت ایشو یہ ہے کہ امت مسلمہ اپنے اوپر نازل کردہ جنگ سے کیسے نکلے؟ جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کا مقابلہ کیسے کرے؟ ایسے میں ہمیں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی نہیں کسی مدبر سیاستدان اور کسی بڑے سائنسدان کی ضرورت ہے۔
ہمارے مذہبی مقرر کیا جانیں اسرائیل کے غیر مرئی مصنوعی ذہانت یونٹ 8200 کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ مناظر کے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ مصنوعی ذہانت کے پروگرام ’’لونڈر‘‘ اور ’’گوسپل‘‘ کس طرح چن چن کر فلسطینیوں اور لبنانی مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے کسی ماہر کو بلائیں، کسی ٹیکی TECHY کو بلائیں، ہمارا مسئلہ مذہبی نہیں سائنسی ہے، جناب!! (روزنامہ جنگ۔ 10 اکتوبر 2024ء)
محمد بلال غوری روزنامہ جنگ کے کالم نویس ہیں۔ اگرچہ ان کا معاملہ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ والا ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف کالم لکھنا ضروری خیال کیا۔ انہوں نے بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک پر حملہ ضروری خیال کیا۔ انہوں نے لکھا۔
’’ہمارے اپنے ذاکر نائیک کیا کم تھے بھارت سے نکالے ہوئے مبلغ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سرکاری مہمان کی حیثیت سے مدعو کرلیا گیا؟ الحمدللہ، یہی تو وہ میدان ہے جہاں ہمارا کوئی مدمقابل اور ثانی نہیں۔ کہنے کو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر تسلسل کے ساتھ کلمہ گو مسلمان کو تبلیغ کیے جارہے ہیں۔ اسلام زندہ باد کانفرنس کے عنوان سے اجتماع ہوتے ہیں، تحفظ اسلام کانفرنس کی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے، ختم نبوت پر مذاکرے ہوتے ہیں، محافل میلاد کا انعقاد کیا جاتا ہے، اہل بیت کی شان میں تقریبات ہوتی ہیں، ذاکر معرکہ کربلا کے محاسن بیان کرتے ہیں، جب معلوم ہوا کہ حضرت ڈاکٹر ذاکر نائیک تشریف لارہے ہیں تو ملک بھر میں بھونچال آگیا۔ لبرل اور روشن خیال حضرات نے تو مخالفت کی ہی مگر سب سے زیادہ تنقید مذہبی طبقات کی طرف سے سامنے آئی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک غیر روایتی قسم کے عالم ہیں اور ان کی پاکستان آمد سے مقامی علما کا کام متاثر ہوگا‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 10 اکتوبر 2024ء)
افضال ریحان پاکستان کے معروف سیکولر اور لبرل کالم نویس ہیں۔ وہ اپنے کالموں میں اسلام اور مسلمانوں کو مشرف بہ مغرب کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان آئے تو ان کے ’’اینٹیناز‘‘ بھی کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے اپنے کالم میں لکھا۔
’’ڈاکٹر ذاکر صاحب کی پاکستان یاترا کا پروگرام سامنے آیا تو جہاں ایک نوع کی تشویش ہوئی وہیں خیر کا ایک پہلو بھی ذہن میں آیا، تشویش اس بات کی کہ پاکستان میں مذہبی جنونیت پہلے ہی زوروں پر ہے، ایسے میں ڈاکٹر ذاکر کی آمد سے پہلے سے موجود شدت پسندی میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ ان تحفظات کے باوجود خیر کا پہلو یہ لگا کہ ہمارا پاکستانی سماج جس فکری جمود کا شکار ہے ایسے میں اگر کوئی پتھر پھینکے گا تو سماج میں کچھ نہ کچھ ہلچل یا ارتعاش ضرور آئے گا اور اس میں سے تعمیر کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے، آج الحمدللہ دونوں باتیں درست ثابت ہورہی ہیں‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 12 اکتوبر 2024ء)
بلال غوری معروف دانش ور اور صحافی ہارون الرشید کے فرزند ارجمند ہیں۔ ان کا پسندیدہ موضوع ڈارون ازم ہے مگر انہوں نے بھی ڈاکٹر ذاکٹر نائیک کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو ڈالے اور کم از کم ڈاکٹر ذاکر نائیک کے گال پر ایک چپت تو لگا ہی دیا۔ انہوں نے اپنے کالم میں لکھا۔
’’پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے عالمی مبلغ سے خاتون نے پوچھا کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں رہتی ہیں، جو بظاہر اسلامی ہے۔ صوم و صلوٰۃ سمیت شرعی احکامات کی پیروی کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود ہم جنس پرستی اور سود خوری جیسے ہولناک گناہ بھی عام ہیں۔ مبلغ بات سمجھ نہیں سکا۔ کہا: سوال میں تضاد ہے۔ اسلامی معاشرے میں یہ کام کیسے ہوسکتے ہیں۔
پھر خاتون سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا، جو اُس کے گلے پڑ گیا۔ ماضی میں شاذ ہی کبھی وہ تنازعات کی زد میں آئے ہوں گے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 13 اکتوبر 2024ء)
ہم اس بات پر بہت خوش اور مطمئن تھے کہ پنجاب کے تمام دانش ور اور صحافی ڈاکٹر ذاکر نائیک پر حملوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں مگر ہمارے حامد میر خیر سے اس موضوع پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ نہ جانے کیسے ہمارا خیال حامد میر تک پہنچ گیا اور حامد میر نے کہا تمہاری بات غلط ہے۔ انہوں نے یہ کہا اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف ’’ڈاکٹر ذاکر نائیک، بلاول اور مریم نواز‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھ مارا۔ انہوں نے لکھا۔
’’اس دوران ڈاکٹر ذاکر نائیک حکومت پاکستان کے سرکاری مہمان بن کر تشریف لے آئے اور پھر ان کے بیانات اور انٹرویوز سے ایسی بحثوں نے جنم لیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم پس منظر میں چلی گئی۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن 26 ویں آئینی ترمیم اور ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے میزبانوں کو خاصی مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ بہت عرصہ پہلے میں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں دارالعلوم دیوبند کا ایک فتویٰ پڑھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو علما حق سے برگشتہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس کے بعد جامعتہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹائون کراچی کا بھی ایک فتویٰ سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک مذاہب کے تقابل پر کافی معلومات رکھتے ہیں لیکن حدیث اور فقہ میں ان کی علمیت مسلمہ نہیں، لہٰذا دینی مسائل میں ان کی آرا پر اعتماد ضروری نہیں۔ وہ جب پاکستان پہنچے تو سرکاری میڈیا نے بتایا کہ بھارتی حکومت نے ان کے پیس ٹی وی پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان کے ٹی وی چینل پر بنگلا دیش، کینیڈا اور برطانیہ میں بھی پابندی ہے۔
اسی انٹرویو میں ڈاکٹر صاحب نے کہا عورت سربراہ مملکت نہیں بن سکتی کیونکہ اسے مردوں سے ہاتھ ملانا پڑے گا اور پھر کہا کہ جب کوئی عورت حکمران بنتی ہے تو اس کی آخرت برباد ہوجاتی ہے۔ ان کی یہ بات سن کر مجھے وہ علما یاد آئے جنہوں نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی اور نواز شریف کے مقابلے پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حمایت کی تھی۔ کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک کو مریم نواز کا راستہ روکنے کے لیے پاکستان بلایا گیا؟ ایک اور انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اگر ڈکٹیٹر قرآن و حدیث پر عمل کرتا ہے تو کوئی پرابلم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سن کر میں نے سوچا کہ اگر قائداعظم اور علامہ اقبال آج زندہ ہوتے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک کی باتوں پر ان کا کیا ردعمل ہوتا؟ آج کل بلاول زرداری آئینی عدالت کے حق میں قائداعظم کے حوالے دے رہے ہیں۔ ان سے پوچھنا تھا کہ قائداعظم کے پاکستان میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے طرز فکر کی کتنی گنجائش ہے؟۔ (روزنامہ جنگ۔ 14 اکتوبر 2024ء)
ان تمام تحریروں کے مطالعے سے ’’تاثر‘‘ ابھرتا ہے کہ ان تحریروں کو وجود بخشنے والے تمام افراد انتہائی اصول پسند ہیں اور وہ اصول کے خلاف کسی بات کو برداشت نہیں کرتے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ہم عرض کرتے ہیں کہ امریکا 1958ء سے اب تک ہر دن ہماری قومی حرمت کو پامال کررہا ہے۔ امریکا ہمارے مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ہمارے قومی وقار کا کھلا دشمن ہے مگر ڈاکٹر ذاکر نائیک پر گرجنے برسنے والوں میں کس نے آج تک امریکا کے خلاف اعلان جہاد کیا ہے؟ پاکستان کے جرنیل 1958ء سے ہماری جمہوریت، ہماری سیاست، ہماری معیشت، ہماری عدلیہ اور ہماری آزادی کو ریپ کررہے ہیں مگر ڈاکٹر ذاکر نائیک پر حملہ کرنے والے کس شخص نے جرنیلوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے؟ بھٹو خاندان نے سندھ میں اور شریف خاندان نے پنجاب میں لسانی سیاست کی ہے اور اب بھی کررہے ہیں مگر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں کس نے ان دونوں خاندانوں پر تھوکا ہے؟
غور کیا جائے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ وہ ایک ارب 80 کروڑ کے عالم اسلام میں تقابل ادیان کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ 8 ارب انسانوں کی اس دنیا میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پائے کا کوئی عالم موجود نہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی فکر اور مناظروں سے ہزاروں ہندو اور عیسائی مسلمان ہوچکے ہیں۔ چنانچہ کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک اس سلوک کے مستحق ہیں جو سلوک پنجابی دانش وروں اور صحافیوں نے ان کے ساتھ کیا ہے۔ اقبال کے عظیم المرتبت ہونے میں کیا کلام ہے۔ مگر اقبال نے اپنے خطبات میں اسلام کو جس طرح ’’مشرف بہ مغرب‘‘ کیا ہے وہ ایک ہمالیائی غلطی ہے، اور ہم ایک ماہ میں اس غلطی پر اقبال کے خلاف دو سو صفحے کی کتاب لکھ سکتے ہیں۔ مگر ہمیں لکھتے ہوئے 34 سال ہوگئے ہیں اور ہم نے آج تک اقبال کے خلاف ایک لفظ نہیں لکھا۔ اس کی وجہ کوئی خوف ہے نہ کوئی رعایت۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ہم پوری شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ 34 سال تک اقبال کی مدح سرائی کے باوجود ہم آج تک اقبال کی تعریف کا حق ادا نہیں کرسکے۔ ان کی شاعری سے پیدا ہونے والی تعریف کا۔ ہم نے مولانا مودودیؒ سے سوچنا اور لکھنا سیکھا ہے مگر ہمیں بیس سال سے مولانا سے ایک درجن باتوں پر سخت اختلاف ہے۔ مگر ہم نے بیس سال میں آج تک اپنے ایک اختلاف کو بھی ظاہر نہیں کیا۔ اس کی وجہ بھی کوئی خوف یا رعایت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا پوری امت مسلمہ کے محسن ہیں اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ 34 سال تک مولانا کی تعریف کرنے کے باوجود ہم سے آج تک مولانا کی تعریف کا حق ادا نہیں ہوسکا۔ مطلب یہ کہ جس دن ہم اقبال اور مولانا کی تعریف کا حق ادا کرلیں گے اس دن اقبال اور مولانا کے خلاف کلام کریں گے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک اقبال اور مولانا کے پائے کے انسان نہیں ہیں۔ مگر موجودہ حالات میں وہ پوری امت کے محسن ہیں۔ چنانچہ اگر ان سے کوئی غلطی ہو بھی گئی ہو تو ہمیں اسے نظر انداز کردینا چاہیے۔ اس لیے کہ ہم بحیثیت ایک امت کے ابھی تک ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تعریف کا حق ادا نہیں کرسکے ہیں۔ لیکن پاکستان کے پنجابی دانش وروں اور صحافیوں کے لیے شاید کسی بھی چیز کی کوئی تقدیس نہیں ہے اور وہ ہمارا کام ہے ہم تو سرِ بازار ناچیں گے کہ اصول کو مانتے ہیں۔ اللہ اکبر۔