اسلام آباد میں ہم نے کانفرنس بلائی

301

پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم ابھی کل کی بات ہے، ہوسکتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والے کچھ لوگ ابھی زندہ ہوں، جنہیں تاریخ سے واقفیت اور دلچسپی ہے انہیں یاد ہوگا کہ مارواڑی سیٹھ کلکتہ سے کیسے بھاگ رہے تھے، انہیں پیسا لٹ جانے کا خوف تھا، اسی لیے یہ سب جاپانیوں کے حملے کے خوف سے کلکتہ سے بھاگ رہے تھے، جو سیٹھ تھے ان کے پاس پیٹیوں کی پیٹیاں تھیں جن میں سب مال و دولت اور جو غریب تھے وہ بے چارے چھپکلیوں کی طرح ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ریل گاڑیوں میں لدے ہوئے آرہے تھے۔ ایک عجیب سماں تھا، غنودگی کے مارے ہوئے بچوں کے سر ایک جانب ڈھلکے ہوئے، ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئیں، غذا کی کمی کے باعث سوکھے چہرے اور غبارے کی طرح پھولے ہوئے پیٹ، چہرے ان کے نقاہت کے نشان بنے ہوئے تھے اور گردنیں کسی سوکھی شاخوں کی طرح شانوں پر ڈھلکی ہوئی تھیں، یہ ماضی کا ہندوستان تھا، گویا ہر طرح کے انسانی حقوق سے محروم، اور آج کا ہندوستان بھی کوئی زیادہ نہیں بدلا، بلکہ مقبوضہ کشمیر سمیت جہاں جہاں بھارت میں لوگ مرکز سے تنگ ہیں وہاں تو اس سے بدتر منظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، اور جو مرکز کے ساتھ ہیں وہ ان سے بھی گئے گزرے حال میں زندگی بسر کر رہے ہیں، بس ایک فلم انڈسٹری ہے جس میں ’’فلمی سیٹھ‘‘ مل رہے ہیں، جو کسی فلم میں نوکر اور کسی میں سیٹھ بنے ہوتے ہیں۔

ہندوستان میں ماضی کا ایک منظر یہ بھی تھا کہ مغربی بنگال میں دریائے ہوگلے کے کنارے، ہوڑہ پل پر عورتیں اپنے بچوں کو لیے کھڑی ہوتی تھیں کہ کوئی ان سے بچے خرید لے اور پیسے دے جائے، بہت سی مائیں اپنے بچوں کو خاموشی سے دریا میں بھی پھینک دیا کرتی تھیں، اللہ کا شکر ہے پاکستان ہر لحاظ سے بھارت سے بہتر اور اچھا ملک ہے، تاہم ایک مافیا ہے جو چیخ چیخ کر شور مچا رہا ہے کہ لٹ گئے مارے گئے، یہی مافیا ہے جو نوجوانوں کو ورغلاتا ہے اور انہیں بیرون ملک چلے جانے کی ترغیب دیتا ہے کہ پاسپورٹ بنوائو اور یہاں سے نکل جائو، حالانکہ یہاں دریائے ہوگلے والی کیفیت نہیں ہے۔

برصغیر انگریزوں سے آزاد ہوا تھا یہ بھی ایک تاریخی حوالہ ہے مگر ہم آج بھی انگریزوں کے ذہنی غلام ہیں، ولایت جاکر بہت ’’خوش‘‘ ہوتے ہیں جیسے کوئی بڑا معرکہ مار لیا ہو، ہندو قیادت ہر وقت خوف میں مبتلا رہتی ہے، اسے کسی نہ کسی کا خوف ہی لاحق رہتا ہے خوف زدہ رہنا اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے یا اس کا خمیر ہی خوف کی مٹی سے گوندھا گیا ہے کچھ تو ہے، ایک طرف بھارت کا یہ خوف زدہ چہرہ، اس کی اقتصادیات کا بہت شور ہے، ریکارڈ کی بات ہے 1990 میں اس کی فی کس آمدنی1,190 ڈالر تھی، یہ ابھی کل کی بات ہے کوئی پرانی بات نہیں ہے، اسے دنیا میں صرف اس لیے اہمیت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی آبادی کی وجہ سے بڑی مارکیٹ ہے۔ ہندو لیڈر شپ متعصب اس قدر کہ قانون بنانے جارہی ہے کہ ایک علاقے میں کوئی شہری مسلمان سے خریدو فروخت نہ کرے، لیکن بنگلا دیشن نے اسے کان سے پکڑ کر اپنے ملک سے نکالا اور اب کینیڈا گھسیٹ کر نکال رہا ہے۔

ابھی حال ہی میں شنگھائی کانفرنس میں اس کے وفود آئے، وفد کے سربراہ ہائی کمیشن سے باہر ہی نہیں نکلے، اور دوسری جانب ہم ہیں کہ ہم نے شہریوں کو گھروں سے ہی نہیں نکلنے دیا، ایس سی او کانفرنس میں اسلام آباد اور راولپنڈی کی چالیس لاکھ آبادی گھروں میں محصور کردی گئی، ایسے جیسے یہ غزہ میں رہ رہے ہوں یا مقبوضہ کشمیر میں، ہر گلی بند، ہر سڑک بند، حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی مارکیٹیں بھی بند، جس نے دکان کھولی اسے بھاری جرمانہ، شہر میں صرف قبرستانوں کے دروازے کھلے یا محلوں کی مساجد کے، کوئی راستہ ایسا نہیں تھا کہ جہاں سے کوئی ایمبولینس ہی اسپتال پہنچ سکے اور ناکوں پر بد تمیز پولیس اہل تعینات تھے بد تمیزی میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا، بد مزاج اس قدر خدا کی پناہ، شہریوں کی عمروں کا لحاظ کیے بغیر ان سے اوئے اوئے کرکے بات کرتے، پیچھے ہٹ جائو، دفعہ ہوجائو، اوئے بے غیرت، جیسے الفاظ، یہ وہ الفاظ ہیں جو لکھے جا سکتے ہیں، جو نہیں لکھے جاسکتے وہ الفاظ کیا ہوں گے؟ شہریوں میں جو گھر سے سبزی لینے گیا وہ واپسی پر سڑک بند ہونے سے پھنس گیا اور لوگ چھے چھے گھنٹے پھنسے رہے۔ ہم ہیں کہ ہماری بیوروکریسی اور ہماری سیاسی قیادت، وہ سیاسی قیادت جو ’’اندھیری راہ داریوں میں سازش کرکے اقتدار میں آتی ہے‘‘ بیورو کریسی اور یہ سیاسی قیادت ہر لحاظ سے وہی کا م کرتی ہے جو یہاں انگریز کرتے رہے ہیں، کہ لوگوں کو محکوم سمجھو، انہیں محصور کرکے رکھو، لیکن یہ کام ذرا دیسی انداز میں کیے جاتے ہیں، کوئی غیر ملکی مہمان آجائے، غیر ملکی کرکٹ ٹیم آجائے یا کانفرنس، بس شہر اور گلیاں بند، سونجھیاں ہوجان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے، اس بار تو ایک عجیب بات ہوئی، مقامی میڈیا بند اور غیرملکی اور بھارتی میڈیا کھل کر کھیلتا رہا، سیاسی راہنمائوں سے ملاقات کرتا رہا مقامی میڈیا کانفرنس کی کوریج کے لیے کارڈ کے حصول کے لیے اور شہری گھروں سے باہر نکلنے کو ترستے رہے کہ ہم اسلام آباد میں کانفرنس بلائی، حکومت خوش تھی تھا سرکار کے ٹی وی پر تجزیہ کاری کرنے والے، انہیں تو اپنے معاوضے سے غرض، حکومت کسی کی بھی ہو سرکاری تجزیہ کار حاضر ہیں۔