اسمارٹ فون نئی نسل کواخلاقی و نفسیاتی الجھنوں سے دوچار کررہا ہے

128

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) موبائل فون کا بے تحاشا استعمال ہماری نئی نسلوں کے لیے ذہنی بگاڑ کا باعث بن رہا ہے، موبائل فون کے بکثرت استعمال کی بدولت بچوں کی نگہداشت سے لاپرواہی، گھر کے کاموں سے احتراز اور سونے جاگنے کے معمولات بھی بے ترتیب ہوکر رہ گئے ہیں۔ہماری نوجوان نسل کی تمام تر توجہ تعلیم سے کہیں زیادہ موبائل فون کی دنیا تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اسمارٹ فون کے آنے سے کتاب اور قلم کا رشتہ صرف نصابی سرگرمیوں تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے،کہ موبائل فون ایک تفریح کا اعلیٰ نہیں ہے، اس کے ذریعے تعلیم، کاروبار اور علم بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، ہم ٹیکنالوجی سے اپنے آپ کو کاٹ نہیں سکتے ہیں لیکن سماجی تربیت کو فروغ دینا ہوگااور آسانی کے ساتھ ہر خاص و عام تک موبائل کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہوگی۔ان خیالات کا اظہار معروف مذہبی اسکالر اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن مفتی محمد زبیر،گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کی ترجمان و سابق رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو اورویمن اسلامک لائرز فورم کی چیئرپرسن طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے جسارت کے سوال:کیا موبائل فون ہماری نئی نسلوں کو تباہ کررہا ہے؟ کے جواب میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ مفتی محمد زبیر نے کہا کہ اگر موبائل فون کا استعمال درست سمت میں ہوگا تو یہ ہمارے لیے نفع کا باعث بنے گا اور اس کا غلط استعمال ہمارے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے،موبائل اور انٹرنیٹ نے جہاں رابطوں کو آسان کیا ہے اور فاصلوں کو سمیٹا ہے وہیں اس کے بے جا استعمال نے بہت سی مشکلات اور اخلاقی و نفسیاتی الجھنوں کو بھی جنم دیا ہے۔بات تب مزید خطرناک ہو جاتی ہے جب چھوٹے چھوٹے بچوں کو بہلانے کے لیے مائیں اپنی محبت بھری لوریوں کے بجاے موبائل کی ا سکرین کا سہارا لے لیتی ہیں‘ روتے بچے کو چپ کرانے کا واحد آسان حل اور علاج والدین کے لیے موبائل ہی رہ گیا ہے جس کے مضر اثرات سے بے خبر مائیں اپنی شفقت بھری لوریاں بھولتی جارہی ہیں ‘یوں باپ بھی اپنی باتوں سے محبت کا اظہار نہیں کر پاتے اور یہ بچے اپنی دادی ،نانی،پھوپھی ،خالہ یہاں تک کے سگے بہن بھائیوں سے بھی دور ہوتے چلے جاتے ہیں ، یوں رشتوں کی اہمیت ختم ہو تی چلی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ موبائل فون سے دور رکھنے کے لیے نوجوانوں کو مثبت اور تعمیری مشاغل میں مصروف رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ نسل نو کو تصواراتی دنیا سے حقیقی دنیا میں لانے کی ضرورت ہے۔موبائل فون کے غلط استعمال اور ان کے نقصانات سے بچنے کے لیے کچھ ایسی تدبیریں اختیار کرنا ضروری ہیں جن کی بناء پراپنی ضرورت کی اس اہم ایجاد کو استعمال تو کریں، مگر اس کے معاشرے پر پڑنے والے برے اثرات سے بھی بچایا جاسکے، لہٰذا نوجوان نسل اس تناظر میں آگاہی اور تعلیم دی جائے کہ موبائل فون ایک تفریح کا اعلیٰ نہیں ہے، اس کے ذریعے تعلیم، کاروبار اور علم بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، ہم ٹیکنالوجی سے اپنے آپ کو کاٹ نہیں سکتے ہیں لیکن سماجی تربیت کو فروغ دینا ہوگااور آسانی کے ساتھ ہر خاص و عام تک موبائل کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہوگی۔سائرہ بانو نے کہا کہ کسی بھی ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں اور موبائل فون بھی ایک ٹیکنالوجی ہے،اس چھوٹے سے آلے نے ہمارے خیالات، اظہار، معاملات، ذہن، قلب اور سکون سب کو بدل ڈالا ہے،آج صورت حال یہ ہے کہ اینڈرائڈانقلاب کے حالیہ دور میں ہمارے پڑھے لکھے باشعو ر اور سنجیدہ طبقہ نے بھی اپنی تہذیب وتمدن کو فراموش کر دیا ہے۔انسان کی شرافت اور تمیز ختم ہو کر رہ گئی ‘ غیر ضروری استعمال نے آج ہمیں اخلاقی اور سماجی پستیوں میں دھکیل دیا ہے‘ معاشرے میں فحاشی اور عریانی بھی غیرمعمولی حد تک بڑھ رہی ہے‘ معاشرے کو بچانے کے لیے سب سے پہلے تو معاشرے کو اس کے مثبت اور منفی پہلو کے حوالے سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہماری نوجوان نسل کی درست سمت میں رہنمائی والدین کیلئے بہت بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ اسمارٹ فون کے آنے سے کتاب اور قلم کا رشتہ صرف نصابی سرگرمیوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے اور یوں ہماری نوجوان نسل کی تمام تر توجہ تعلیم سے کہیں زیادہ موبائل فون کی دنیا تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔پہلے زمانے میں بچے گھر کے بڑے بوڑھوں کے ساتھ وقت گزارا کرتے تھے، وہ اپنے تجربات سے اپنے علم سے انہیں مستفید کرتے تھے۔ بہت سی مفید معلومات ملا کرتی تھیں لیکن یہ روایات بھی آہستہ آہستہ دم توڑتی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو ابتدائی عمر میں موبائل اور اسکرین سے دور رکھنا مشکل تو ہے مگر ناممکن بالکل نہیں ہے‘ ہم بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے زیادہ دیر دور نہیں رکھ سکتے البتہ ان کے قریب رہ کر ان کی نگرانی، ان میں ڈسپلن اور دوسری دلچسپی پیدا کرنے سے اس کے استعمال میں کمی لائی جاسکتی ہے۔والدین رول ماڈل بنیں اور پہلے اپنے اوپر چیک اینڈ بیلنس رکھیں اور غیر ضروری طور پر خود بھی بچوں کے سامنے اس کے استعمال سے پرہیز کریں، بچوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ گفتگو اور دیگر دلچسپ ہوبیزمیں مشغول رکھیں ، ورزش ،کھیل کے میدان اور پارک میں ان کو اپنے ساتھ شریک کریں، بچوں کو موبائل کے فوائد اور نقصانات پر مکالمے اور تحریروں سے آگاہ کرتے رہیں۔گھریلو مصروفیات اور روٹین کے کاموں کے لیے ٹائم ٹیبل ترتیب دیں اور بچوں کو اپنے ساتھ شامل کریں، خاص طور پر بچوں کو نماز کے لیے اپنے ساتھ مسجد ضرور لے جائیں ، دینی تعلیم کا اہتمام کریں۔اسمارٹ فوں اور انٹرنیٹ کی لت میں کمی لانے کے لیے انہیں دیگر مشاغل کی جانب راغب کریں ، پالتو جانور ، گھر کی باغبانی ،ڈرائنگ اور آرٹ ورک میں ان کے ساتھ ملکر مشغول رہیں۔