انمول ہیرا

91

نونہالوں کے لیے سوسے زیادہ کتابیں لکھیں۔ ان میں ۴۲ سفر نامے شامل ہیں۔ اس طرح نونہالوں کو دنیا کے بہت سے ملکوں کی سیر کرائی اور وہاں کے لوگوں سے ملوادیا۔ ان کی اچھی اچھی باتیں بتائیں، تا کہ نونہال بھی ان کو اپنائیں اور اپنے پیارے ملک کو بنانے، سنوارنے کی کوشش کریں۔ مجھے نونہالوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ان کے دوست اور ہمدرد حکیم محمد سعید شہید کا ذکر ہے، جن کو قوم کے بڑے بڑے دماغوں نے ’’ شہید پاکستان‘‘ کا خطاب دیا ہے۔
نونہالوں کی محبت حکیم صاحب کی زندگی کا اہم حصہ تھی، بلکہ اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ زندگی تھی۔ ان کی اس محبت کا سب سے پہلا اظہار رسالہ ہمدرد نونہال ہے، جو انھوں نے ۱۹۵۳ء میں جاری کیا تھا۔ جاری ہی نہیں کیا، جاری رکھا، جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا۔ہمدرد نونہال کو بہتر سے بہتر بنانے کی ہر تدبیر اختیار کرنے کے لیے تیار رہتے تھے اور ہر کوشش میں دل سے شامل رہتے تھے۔ اس کے لیے ۱۹۶۴ء سے جاگو جگائو کا کالم بلاناغہ لکھتے تھے۔ ۱۹۷۸ء سے صحت کے بارے میں سوالوں کے جوابات بھی پابندی سے لکھ رہے تھے۔یہ دونوں کالم نونہال اور بڑے بھی بہت شوق سے پڑھتے تھے۔ جاگو جگائو کے ذریعے سے وہ نونہالوں کو زندہ رہنے کا قرینہ سکھاتے تھے۔

رسالے کے علاوہ نونہالوں کے لیے اچھی اچھی، پیاری پیاری کتابیں شائع کرنے کے لیے ایک شعبہ ’’ نونہال ادب‘‘ کے نام سے ۱۹۸۸ء میں قائم کیا، جو اب تک ساڑھے چار سو کے قریب کتابیں شائع کرچکا ہے۔ان کتابوں میں مزے دار کہانیاںبھی ہیں، سفرنامے بھی اور دینی ، تاریخی، سائنسی، معلوماتی کتابیں ہیں۔
حکیم صاحب چاہتے تھے کہ نونہالوں میں مطالعہ کرنے کی عادت ہوجائے اور نصاب کی کتابوں کے علاوہ بھی صاف ستھری اور معلومات بڑھانے والی اور اچھا انسان بنانے والی کتابیں پڑھا کریں۔اس مقصد کے لیے انھوں نے خود بھی نونہالوں کے لیے کتابیں لکھنی شروع کی تھیں۔ بات یہ ہے کہ علم کے اُجالے کے بغیر انسان نابینا ہوتا ہے۔اس کو سب کچھ نظر آتا ہے، مگر کچھ نظر نہیں آتا۔
ہمدرد پبلک اسکول بھی اسی لیے حکیم صاحب نے قائم کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ نونہال خوب تعلیم حاصل کریں، قابل اور اچھے انسان بنیں۔تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی حکیم صاحب بہت زور دیتے تھے۔اخلاق اور کردار کو بہت اہمیت دیتے تھے۔انسانوں سے محبت کو وہ زندگی کا حاصل سمجھتے تھے۔دوسرے کے کام آنا حکیم صاحب کی زندگی کا مقصد تھا۔ ان کے تمام کام دوسروں کے آرام کے لیے ہوتے تھے۔

جن نونہالوں میں بولنے اور تقریر کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، اس کو پروان چڑھانے کے لیے ۱۹۸۵ء میں بزمِ ہمدرد نونہال قائم کی۔ ۵-اگست ۱۹۸۵ء کو پہلا جلسہ ہوا۔بزمِ ہمدرد نونہال کے جلسوں میں نونہالوں کی تقریریں سن کر وہ بہت خوش ہوتے تھے۔فرماتے تھے کہ ہمارے بچوں میں بڑی صلاحیتیں ہیں۔ ان کو موقع ملے اور ان کی حوصلہ افزائی ہو تو یہ بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔۱۹۹۵ء کے شروع میں بزمِ ہمدرد نونہال کا نام بدل کر ’’ہمدرد نونہال اسمبلی‘‘کردیا۔ مقصد یہ تھا کہ نونہال ابھی سے قوم کی قیادت کرنے کی تربیت حاصل کریں۔ہمدرد نونہال اسمبلی میں ہر مہینے وہ خود بھی شریک ہوتے تھے۔

اپنے بچپن کے اُستادوں کا ذکر بڑی عزت سے کرتے تھے اور ان کا احسان مانتے تھے ۔ کہتے تھے:’’جس نے ایک لفظ سکھا دیا ،وہ بھی استاد ہے۔‘‘
اپنے بچپن کے اُستادوں میں محترمہ جگت چچی جان کا ذکر بڑی عقیدت سے کرتے تھے، جنھوں نے حکیم صاحب کو قرآن شریف حِفظ کرایا۔
ماسٹر ممتاز حسین صاحب اور حکیم محمد اقبال حسین صاحب نے اردو اور انگریزی پڑھائی۔ مولانا قاضی سجاد حسین صاحب کرتپوری نے فارسی ،عربی کی تعلیم دی تھی۔ان بزرگوں کو بڑی محبت سے یاد کرتے تھے۔ ان کا احسان مانتے تھے کہ انھوں نے مجھے علم کی دولت دی۔
شہادت سے کوئی ایک مہینا پہلے مجھ سے کہنے لگے کہ اب میں نونہالوں اور نوجوانوں کے لیے جو کتابیں لکھوں گا ،اُن میں سے ایک ایک کتاب اپنے ہر استاد کے نام منسوب کروں گا۔ افسوس اس کی نوبت نہیں آئی اور ظالموں نے اس انمول ہیرے کو ہم سے چھین لیا۔