عین اس وقت جب دنیا کی اکلوتی مسلم نظریاتی مملکت پاکستان کی حکومت آئینی عدالت بنانے میں تن من دھن کا زور لگا رہی ہے اسی وقت امریکا اپنے ’نظریاتی ساتھی‘ اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں کامیاب اور مسلمانوں کو مکمل تباہ کرنے لیے ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس (تھاڈ) سسٹم فراہم کرنے اور اسی بہانے اپنی افواج کو اسرائیل میں اُتارنے کے تیاری کر رہا ہے یا کرچکا ہے۔ اس صورتحال سے ایک مرتبہ پھر عالم اسلام کے امریکی دوست حکمرانوں کو ان کی اوقات یاد دلا دی ہے۔ پوری دنیا کے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو امریکا یہ بتا رہا ہے کہ اسرائیل کے دفاع کے لیے امریکا کس حد تک جا سکتا ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا پاکستان میں ہونے والا اجلاس عالمی معیشت کے لیے حقیقی گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے اور ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کو بھی اس بات کا احساس ہوگا کہ اگر مشرقِ وسطیٰ کی جنگ نے طول پکڑا تو ساری دنیا کو اس میں نہ چاہتے ہوئے بھی شامل ہونا ہوگا۔ جس کی وجہ سے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کا اگلا مرحلہ اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) عالمی معیشت کے لیے حقیقی گیم چینجر ثابت نہیں ہو سکیں گے اور نہ ہی اس سے علاقائی تجارتی فوائد حاصل کیے جا سکیں گے۔ اگر یہ جنگ جاری رہی تو مغرب کے بجائے مشرق کے ممالک پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کو بھی معیشت کے گرد گول گول گھومنے سے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کو بھی معیشت کے ساتھ عسکری اتحاد بھی بنایا جائے۔ مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں ’’تھاڈ‘‘ نظام کی شمولیت صرف ایران نہیں عرب ممالک پاکستان اور چین کے لیے بھی کھلی دھمکی ہے کہ اسرائیل سے کسی بھی ملک کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور اگر کسی نے جواب کی کوشش کی تو اس کو روکنے کے لیے ’’تھاڈ‘‘ نظام موجود ہے۔ اسرائیل مشرق میں امریکا کا مضبوط فوجی اڈہ ہوگا۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق پنٹاگون کے پریس سیکرٹری پیٹ رائڈر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی ہدایت پر سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس (تھاڈ) سسٹم اور اس سے وابستہ فوجی اہلکاروں و عملے کو اسرائیل میں تعینات کرنے کی منظوری دی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی بی سی نے 22 اکتوبر 2023ء کو بتا دیا تھا کہ 8 اکتوبر 2023ء پنٹاگون نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل میں اپنے دو طاقتور ترین میزائل دفاعی نظام بھیجے گا جن میں سے ایک ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس (تھاڈ) بیٹری اور دوسرا پیٹریاٹ شامل ہیں۔
اب تک یہی کہا جارہا تھا کہ امریکی صدر مشرقِ وسطیٰ میںجنگ کی تیاری نہیں کر رہے ہیں، لیکن اب امریکی صدر نے انتخابات سے صرف 20 دن قبل اسرائیل کو تھاڈ میزائیل دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس پر یہ سوال بھی پیدا ہو رہا ہے کہ اس سلسلے میں صدارتی امیدوار ٹرمپ نے بھی رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں حالیہ فوجی مہم جوئی سیاسی، اقتصادی اور امریکی زندگیوں کے لحاظ سے امریکا کو مہنگی ثابت ہوئی ہے۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا ہے کہ انتخابات سے 20 دن قبل ایسا فیصلہ کیا جائے جس سے مشرقِ وسطیٰ سمیت پورے ایشیا میں جنگ کے بادل نظر آنے لگیں اور اس فیصلے میں ٹرمپ شریک نہ ہو۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صدر بائیڈن نے پہلے ہی خطے میں 2 امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو منتقل کر کے پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔ ماہر ِ عسکری امور یہ بات جانتے ہیں کہ اس قسم کے ہتھیار اس وقت تک نہیں نکالے جاتے جب تک کہ آپ اسے استعمال کی ضرورت محسوس نہ کریں۔
8 اکتوبر 2023ء ہی سے مشرقی بحیرہ روم میں امریکا کے پاس پہلے سے جنگی بحری بیڑہ موجود ہے اور اب خطے میں ایک دوسرا بحری بیڑہ اس کے ساتھ شامل ہو گیا ہے۔ اس طیارہ بردار بحری بیڑے میں 70 سے زیادہ جنگی طیارے موجود ہوتے ہیں یعنی کافی گولہ بارود موجود ہوتا ہے۔ صدر بائیڈن نے ضرورت پڑنے پر خطے میں منتقل ہونے کے لیے ہزاروں امریکی فوجیوں کو بھی تیار رکھا ہے۔ اس کے علاوہ غزہ اور لبنان پر بمباری کرنے والے لڑاکا طیارے امریکی ساختہ ہیں اور ان میں سے زیادہ تر جو اس وقت استعمال ہو رہے ہیں وہ جدید اسلحے سے لیس ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ امریکا کے ہوا باز ہی ان جہازوں پر بیٹھ کر غزہ اور لبنان کے بچوں کو شہد کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے میزائل دفاعی نظام آئرن ڈوم میں جو میزائل استعمال ہو رہے ہیں وہ بھی امریکی ساختہ ہیں۔
ایران کے حملے سے قبل ہی امریکا اسرائیل کی جانب سے گولہ بارود اور اسلحے کی درخواست سے پہلے ہی مزید سپلائی بھیج چکا ہے۔ اس سلسلے میں صدر بائیڈن نے کانگریس سے کہا ہے کہ وہ مشرقی وسطیٰ کے اتحادی (اسرائیل) کے لیے مختص 105 ارب ڈالر کی فوجی امداد میں سے 14 ارب ڈالرز کی منظوری دے۔
امریکا نے کانگریس کے ارکان کو بتایا ہے کہ یکم اکتوبر کو ایران نے اسرائیل پر 200 کے قریب بیلسٹک میزائل داغے تھے اور ایرانی پاسداران انقلاب نے دھمکی دی تھی کہ ’اگر اسرائیل نے جوابی کارروائی کی تو ایران مزید حملے کرے گا۔ ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل نے اپنے تمام میزائل دفاعی نظام استعمال کیے جن میں کم فاصلے تک مار کرنے والے راکٹوں کے لیے بنائے گئے آئرن ڈوم سسٹم سے لے کر ایرو سسٹم بھی شامل ہے جو فضا اور خلا سے داغے گئے بیلسٹک میزائلوں کو تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس سب کی موجودگی کے بعد بھی اسرائیل کو ایران اور لبنان کے نہتے عوام پر حملے کے لیے ’’تھاڈ‘‘ میزائیل کی ضرورت ہے۔ تھاڈ نظام کے ذریعے مختصر اور درمیانے فاصلے تک نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائل کو اس وقت مار گرایا جا سکتا ہے جب وہ اپنی پرواز کے آخری مرحلے میں ہوتا ہے۔ اس نظام کی رینج 200 کلومیٹر ہے اور یہ 150 کلومیٹر کی بلندی تک کام کرتا ہے۔
اس دفاعی نظام میں دشمن کی جانب سے میزائل داغے جانے کی صورت میں تھاڈ کا ریڈار سسٹم اس کا پتا لگا لیتا ہے۔ تھاڈ کا ریڈار سسٹم یہ معلومات اپنے کمانڈ اور کنٹرول سسٹم کو بھیجتا ہے جو فوراً ایک انٹرسیپٹر میزائل لانچ کرنے کی ہدایت جاری کرتا ہے۔ انٹرسیپٹر میزائل کو دشمن کی جانب سے داغے گئے میزائل کی جانب فائر کیا جاتا ہے۔ بیلیسٹک میزائل کو اس کی پرواز کے آخری مرحلے میں مار گرایا جاتا ہے۔ تھاڈ کے ایک لانچر ٹرک پر آٹھ انٹرسیپٹر میزائل نصب ہوتے ہیں۔ امریکا پہلے ہی کہہ چکا ہے اس کا سب سے بڑا دشمن چین ہے۔ اس لیے وہ مشرق پر اپنی عسکری قوت کو بڑھانے کے لیے اسرائیل کو فوجی اڈہ کے طور پر تیار کر رہا ہے۔ جیسا کہ وہ بحرالکاہل میں فلپائن اور جاپان کو اپنے فوجی اڈے میں تبدیل کر چکا ہے۔ اس طرح تھاڈ کا ریڈار سسٹم صرف ایران کے لیے نہیں پورے مشرق میں موجود اسلامی ممالک اور چین کوبھی اس نظام سے شدید خدشات ہیں۔