امت ِ مسلمہ کی موجودہ حالت کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں بے شمار مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم ممالک باہمی اختلافات اور اندرونی کشمکش میں الجھے ہوئے ہیں، ایک متحد اور مضبوط امت کے بجائے مسلمان قومیں ٹکڑوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اسی انتشار اور کمزوری کا نتیجہ ہے کہ امت ِ مسلمہ آج لادین قوتوں کے سامنے بے بس اور مغلوب ہو چکی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کو اس حال تک پہنچا دیا؟ اور وہ کیا عوامل ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو ان کی اصل طاقت اور قوت سے محروم کر دیا؟ امت ِ مسلمہ کے انتشار اور کمزوری کی سب سے بڑی وجہ ایمان کی کمزوری اور عملی انحطاط ہے، قرآن و سنت کی تعلیمات سے دوری اور اسلامی احکامات پر عمل نہ کرنا مسلمانوں کی زوال کی بنیادی وجہ ہے، مسلمان قوم نے اپنی اصل پہچان، یعنی توحید، اخلاقی قوت، اور عدل و انصاف کے اصولوں کو پس ِ پشت ڈال دیا ہے، انسانی زندگی گزارنے کے طریقے مذہب کی بنیاد پر قایم کر لیے اور قرآن و سنت کے احکامات کو اپنی زندگی سے نکال باہر کر دیا، پوری دنیا کے مسلم ممالک کو اگر آپ دیکھیں تو آپ کو کہیں بھی اسلامی معاشرہ نظر نہیں آئے گا صرف آپ کو مسلمان بستے نظر آئیں گے جو اسلام سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا معاشرہ ہے اور بس، اسلامی معاشرہ اْس وقت قایم ہو گا جب حکمرانی دین اسلام کی تابع ہو گی، لیکن اگر اس کے برخلاف ہوگا تو ایسا معاشرہ صرف تباہی کی طرف ہی جا سکتا، اور معاشرے میں بے حیائی خود پروان چڑھ جائے گی، یوں امت مسلمہ کا اپنے عقیدے اور کمزور اعمال کی وجہ سے، دشمن پر غالب آنا مشکل ہو جائے گا، غزہ کے معاملے میں جو امت مسلمہ کا کردار ہے یہ اس کی زندہ مثال ہے، آقائے دو جہاں سیدنا محمدؐ اور خلفائے راشدین کے دور میں مسلمانوں کی عظمت کی بنیاد ان کا ایمان اور اللہ کی راہ میں جہاد کا عزم تھا، لیکن آج مسلمانوں نے اپنے دین کو صرف نماز روزے تک محدود کر دیا ہے، جبکہ عملی زندگی میں اسلامی احکام کی کوئی پروا نہیں کی جاتی، یہی وجہ ہے کہ لادین قوتوں کے سامنے مسلمان بے اثر ہو گئے ہیں، مسلمانوں کی رسوائی کی سب سے بڑی وجہ قرآن و سنت سے انحراف ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن میں ہدایت اور کامیابی کا راستہ بتایا تھا، سورہ ال عمران (103) تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، مگر مسلمانوں نے قرآن کی نفی کی اور مذاہب میں بٹ کرزندگی گزارنے کا راستہ اختیار کیا جو تباہی کا سبب بنا۔
دوسری وجہ علم سے دوری اور جہالت کا غلبہ ہے، کیوں مسلم ممالک میں تعلیمی معیار انتہائی پست ہے اور جدید علوم و فنون میں مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس جہالت کی وجہ سے مسلمان دنیا میں ترقی کرنے سے قاصر ہیں، اور علم کے میدان میں پیچھے ہیں مگر اس کے برعکس لادین قومیں علمی اور سائنسی ترقی میں آگے بڑھ چکی ہیں، اور مسلم حکمران ناچ گانے اور رقص و موسیقی کی محفل سجانے میں مصروف ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج کے مسلمان جب تک علم کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اور اپنی قوم کو علمی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کریں گے، تب تک وہ دشمن قوتوں کے سامنے سرنگوں رہیں گے، مسلم ممالک کا المیہ یہ کہ اس کے حکمرانوں کی کمزور قیادت بھی اْمت کے زوال کا سبب ہے، جو غیر ملکی قیادت کے زیر اثر ہیں، جو اپنی ساری توانائی اقتدار کو بچانے میں لگاتے ہیں، ان کو عوام کے حقوق اور مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں، امت ِ مسلمہ کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو دیانت دار، باصلاحیت، اور اسلام کے اصولوں کے مطابق حکمرانی کرے۔ جب تک امت کو ایسی قیادت نہیں ملے گی جو ان کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، جب تک انتشار اور کمزوری کا سلسلہ جاری رہے گا، اْمت مسلمہ دنیا میں نہ صرف رسوا رہے گی بلکہ مغرب کی غلام رہے گی۔
اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اسلامی تاریخ کے سنہری دور میں مسلمان معاشی طور پر خود کفیل اور دنیا کی تجارت میں اہم کردار ادا کرتے تھے، لیکن آج مسلم ممالک کی معیشتیں غیر ملکی قرضوں اور امدادوں پر انحصار کرتی ہیں، اور یہ انحصار امت کی غلامی کا باعث بنتا ہے۔ جب تک مسلم ممالک ان مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کریں گے جب تک اپنی سوچ نہیں بدلیں گے اپنے رویے تبدیل نہیں کریں گے معاملات زندگی درست نہیں کریں گے اور اسلام کو ایک دین نہیں سمجھیں گے اور قانون زندگی نہیں سمجھیں گے اور اس قانون زندگی میں حکمرانی کو سب سے اولیت نہیں سمجھیں گے، اور اپنے آپ کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کریں گے، تب تک وہ مغلوب رہیں گے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں صرف اور صرف نظام کی جنگ لڑنا ہے یہی مسلمانوں کی بقا ہے، امت ِ مسلمہ کو دوبارہ اپنے کھوئے ہوئے وقار اور عظمت کو پانے کے لیے ایمان کی تجدید، علم کی جستجو، باہمی اتحاد، اور اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں دشمنوں پر غالب کر سکتا ہے اور ہمیں دوبارہ دنیا کی ایک عظیم اور مضبوط امت بنا سکتا ہے، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔