چھبیسویں ترمیم کے لیے پھرتیاں !!!

266

پاکستان کے آئین میں چھبیسویں ترمیم پیش کرنے کے لیے تمام حکمران جماعتیں اس طرح مستعد اور متحرک ہیں جیسے انہیں عوام کی خدمت اور ملک کی ترقی کے لیے ہونا چاہیے، مختلف رہنما جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں اسے مفاہمت کا نام دیا جارہا ہے، دوسری جانب ملک بھر کے وکلا نے مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف تحریک چلانے کا بھی اعلان کردیا ہے، آئینی ترمیم پیش کرنے کے لیے تیز رفتاری سے وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی کے اجلاس بھی 17 اکتوبر کو طلب کرلیے گئے، صدر مملکت کو اجلاس بلانے کے لیے سمریاں بھجوادی گئی ہیں۔ تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ آئینی ترمیم پر پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس اب 17 کے بجائے 16 اکتوبر کو کرلیا گیا۔ تاہم پی ٹی آئی نے خصوصی پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ جس رفتار سے کام ہورہا ہے اس سے لگتا ہے کہ جمعرات کو وفاقی کابینہ اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دیدی جائے گی۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس بھی 17 اکتوبر کو طلب کرلیے گئے ہیں۔ وزارت پارلیمانی امور نے بتایا کہ سینیٹ کا اجلاس17 اکتوبرکو دن 3 بجے پارلیمنٹ ہائوس میں ہوگا اور قومی اسمبلی کا اجلاس 17 اکتوبر کی شام 4 بجے بلایا گیا ہے۔ 26 ویں آئینی ترامیم کے لیے پہلے وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے گی جس کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کی جائے اور پھر سینیٹ میں پیش کی جائے گی۔ خیال رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں مشترکہ مسودہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں اور اس کمیٹی میں تمام جماعتوں کے رہنما شامل ہیں۔ کمیٹی میں پی ٹی آئی کے سوا تمام جماعتوں نے اپنے مسودے پیش کیے ہیں۔ صورتحال بگڑتی ہوئی محسوس ہورہی ہے کیونکہ آئینی ترامیم کے خلاف ملک بھر کے وکلا ایک پلیٹ فارم پر آگئے ہیں، کراچی بار کے کنونشن میں وکلا نے آئینی ترمیم لانے پر ملک گیر تحریک چلانے کی دھمکی دے دی۔ البتہ وکلا میں بھی تقسیم ہے جو ابھی واضح نہیں ہے، آل پاکستان وکلا کنونشن میں پاکستان بارکونسل، سپریم کورٹ بار، لاہور اور بلوچستان ہائی کورٹ بارز کے عہدے داروں سمیت سابق صدر سپریم کورٹ بار منیر اے ملک، حامد خان، عابد زبیری، دیگر وکلا رہنما نے شرکت کی جبکہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کوئی عہدے دار شریک نہیں ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اختلافات ہیں جو نعرے بازی سے بھی نظر آئے۔ کنونشن میں گرما گرم تقریریں گئیں اور مجوزہ آئینی ترامیم کو غیرآئینی و غیرقانونی قرار دیا گیا اور آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر وکلا تحریک چلانے کی دھمکی دی گئی ہے، آئینی ترمیم کے مسودے کے بارے میں تو یہ بھی کہا گیا ہے کہ کئی ڈرافٹ گردش کررہے ہیں، یعنی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، اب سوال یہ ہے کہ یہ ساری ترمیم عدلیہ کے خلاف ہورہی ہے، لیکن متحرک سیاسی ٹولے ہیں، مخالفت وکلا کررہے ہیں یا پارلیمنٹ سے زبردستی باہر رکھی جانے والی جماعت اسلامی کررہی ہے، عدالت عظمیٰ کہاں ہے کیا بہت واضح طور پر مفادات کی تقسیم ہے اس آئینی عدالت کے قیام کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ کو تالا لگ جائے گا۔ ملک میں تمام بدمعاشیوں کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو راستہ کھلا مل جائے گا، ہائی کورٹس کچھ نہیں کرسکتیں؟ اور ایک سوال پی ٹی آئی سے بھی ہے وہ حکومت کی مخالف ہے تو ریکارڈ پر لانے کے لیے ہی سہی پارلیمانی کمیٹی کو ترمیم کی مخالفت والی تجویز ہی بھیجتی اس ترمیم کو یکسر مسترد کردیتی، فیصلہ اکثریت کرتی، لیکن پی ٹی آئی کا موقف تو سامنے آجاتا۔ لیکن اس نے کمیٹی کا بائیکاٹ کیا کوئی تجویز ہی نہیں دی، اس طرح واک اوور دے کر ترمیم کا ساتھ ہی دیا گیا ہے۔ اس آئینی ترمیم کو روکنے یا اس کی مخالفت کرنے والے جو پارلیمنٹ میں ہیں انہیں پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر اس کی مخالفت میں دلائل دینے چاہئیں، بائیکاٹ اور واک آؤٹ کرکے تو ایم کیو ایم نے اور پیپلز پارٹی نے بھی بہت سے قوانین منظور کرائے ہیں۔ آج جو لوگ قومی مفاہمت کے نام پر آئینی عدالت کے قیام کے دلائل دے رہے ہیں کل وہی اس سے برات کا اظہار کریں گے، بالکل اسی طرح جس طرح نیشنل سیکورٹی کونسل کے ذریعے عدلیہ اور پارلیمنٹ کے ہاتھ پاؤں کٹوائے گئے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر آئینی ترمیم کے لیے بے چین حضرات اس طرح فکرمند ہیں جیسے یہی ملک کے عوام کا اولین اور آخری مسئلہ ہے یہ حل ہوجائے تو ملک سپر پاور بن جائے گا، ڈالر زمین پر آن گرے گا۔ مہنگائی ختم ہوجائے گی۔ روزگار کے مواقع اتنے ہوں گے کہ بیرون ملک سے لوگ آئیں گے۔ ان میں سے کچھ نہیں ہونے والا، چند روز بعد یہ حکمران پھر حالات کارونا روتے ہوئے عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لاد رہے ہوں گے۔