قرآن و سنت سے ناواقف حکمرانوں اور بیوروکریسی کے باعث اسلامی معاشرہ قائم نہیں ہورہا

361

کراچی (رپورٹ/محمد علی فاروق) قرآن وسنت سے ناواقف حکمرانوں، بیوروکریسی کے باعث اسلامی معاشر ہ قائم نہیں ہو رہا‘ جمہوریت کے نام پرخواص و عوام کو دھوکا دیا جا رہا ہے‘ پارلیمنٹ کو شرعی قوانین پر برتری حاصل ہو تو معاشرہ اسلامی نہیں بن سکتا‘ جماعت اسلامی نے اسلامی آئین کیلیے لازوال جدوجہدکی‘ آرٹیکل 62، 63 پر موثرطریقے سے عملدرآمد کرکے مختلف جرائم میں ملوث افراد کو پارلیمنٹ کا حصہ بنے سے روکا جاسکتا ہے۔ ان خیا لات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ‘ کئی کتابوںکے مصنف، تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف صدیقی اور مجدد الف ثانی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے چیئرمین مولانا ذاکر احمد نقشبندی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پاکستان کا اسلامی آئین معاشرے کو اسلامی کیوں نہیں بنا رہا؟‘‘ فرید احمد پراچہ نے کہا کہ پاکستان کا اسلامی آئین ایک بہت بڑی کامیابی ہے جس کا آغاز جماعت اسلامی نے کیا‘ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ، اسلام کے دستور میں ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہے‘ قرار داد مقاصد آئین کا اہم ترین حصہ ہے‘ اسی طرح سے آئین پاکستان میں آرٹیکل31 و دیگر آرٹیکل شامل ہیں ‘ آرٹیکل 31 خاص اسلامی دستور سے متعلق ہے‘ اس کی تشریح میں واضح ہے کہ اسلامی دستور کے مطابق معاشرے کو اسلامی بنانا اور قرآن وسنت کے تحت بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے‘ یہ بہت بڑی کامیابی ہے‘ اگر ملک کی حکومتیں صیحح ہوتیں تو ان کے راستے میں معاشرے کو اسلامی بنانے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی‘ بہت سے اسلامی ممالک ایسے ہیں جن کا آئین ملک میں اسلامی قوانین کو نافذ کرنے میں رکاوٹ ہے ، اس کی سب سے بڑی مثال ترکی کی ہے ، جس کی حکومت اپنی ریاست میں اسلامی قوانین نافذ کرنا چاہتی ہے مگر اس کا آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ معاشرے کو اسلامی بنا ئیں‘ پاکستان میں مولانا مودودیؒ کی بصیرت تھی کہ انہوں نے اسلامی آئین کو بہت اولیت دی۔ فرید پراچہ نے کہا کہ آئین پر عملدرآمد کرکے معاشرے کو بالکل بدلاجاسکتا ہے‘ آئین اسلامی ہے تو ملک کے حالات ٹھیک کر کے اسلامی فلاحی ریاست وجود میں لائی جاسکتی اور جاگیر داری نظام کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے‘ قرضوں کی معیشت سے نجات کے ساتھ ملک کو خود انحصاری کی راہ پر گامزن کیا جاسکتاہے‘ اسلامی آئین کے تحت لوگوں کو انصاف ملتا ہے‘ معاشرتی مساوات کے ساتھ غربت دور ہوتی ہے ‘ اسلامی آئین ہونے کے باوجود ہمارے ملک میں یہ سب کچھ نہیں ہوسکا کیونکہ قیام پاکستان کے بعد جن کو اقتدار ملا‘ وہ سرے سے اسلام، آئین کی پاسداری اور انصاف کے قائل نہیں تھے‘ انہیں اپنے مفاد اور کرپشن سے غرض تھی چنانچہ حالات بدلتے رہے، سیاسی حکومتیں بدلتی رہیں، فوجی حکومتوں نے بھی اقتدار کے مزے لیے‘ بیوروکریسی کی حکومتیں بھی بنیں لیکن ان سب حکومتوں نے اسلامی آئین کے مطابق معاشرے کو بدلنے کے لیے کچھ نہیں کیا‘ اسی لیے جماعت اسلامی انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ ملک کو عملی طور پر اسلامی بنانا ہے اور معاشرے کو بدلنا ہے تو پھر یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کی پوری طرح اسلام سے وابستگی ہے جنہیں اس بات کا علم ہے کہ اسلام کیا ہے؟ ان کی اپنی زندگی کر پشن و مفادات سے پاک ہو، جو فرقہ پرستی سے ہٹ کر ملک کو صحیح راستے پر ڈالنا چاہتے ہوں‘ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی انتخابات کے سلسلے میں عوام میں شعور بیدار کرتی رہتی ہے اور اس بات کو واضح کرتی ہے کہ چھوٹی موٹی تبدیلی کے بجائے حقیقی طور پر اس ملک کو اسلامی ریاست بنانے والے گروہ یا پارٹی کا ساتھ دیں تو معاشرہ بدل جائے گا کیونکہ پاکستان کے آئین میں معاشرے کو اسلامی بنانے کی ٹھوس بنیاد موجود ہے۔ ڈاکٹر محمد عارف صدیقی نے کہا کہ دراصل جمہوریت ایک ایسا دھوکا ہے جس میں عہد حاضر کے عوام کے ساتھ ساتھ خواص اور علما کو بھی الجھا دیا گیا ہے‘ یہ بات جمہوریت کی مروجہ تعریف کو سننے پڑھنے اور سمجھنے سے واضح ہو جاتی ہے‘ سیدھی بات یہ ہے کہ اسلام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن جمہوریت کی مروجہ تعریف کہتی ہے “عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہے۔” تو ایک طرف حاکمیت اللہ کی اور دوسری طرف حاکمیت اعلیٰ عوام کی ہے‘ یہاں پر واضح فرق سامنے آگیا‘ اب اس فرق کو سمجھتے ہوئے آپ وطن عزیز کا نام دیکھیں‘ “اسلامی جمہوریہ پاکستان” ہے تو یہاں پر بھی تضاد آ گیا‘ اسلامی مانیں تو اس کا مطلب ہوا کہ (اللہ کی حاکمیت، اللہ کی زمین، اللہ کا نظام)۔ جمہوریہ یعنی (عوام کی حکومت مانیں تو عوام کا نظام اور عوام کی حاکمیت)۔ اس کے بعد لوگوں کو الجھانے کے لیے کہا گیا کہ اسلامی جمہوری اصولوں کے مطابق پاکستان کو چلایا جائے گا لیکن مئی 1991ء میں قومی اسمبلی کے منظور شدہ شریعت بل کی شق نمبر3 کے مطابق’’شریعت، یعنی اسلام کے احکامات پاکستان کا بالادست قانون ہوں گے، بشرطیکہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل متاثر نہ ہو‘‘۔ یعنی ملک کے سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل کے متاثر ہونے کی صورت میں قرآن اور حدیث کو رد کر دیا جائے گا اور سیاسی نظام اور حکومتی امور میں سپریم لا 1973ء کا آئین ہی ہو گا تو ایسی صورت میں آپ اسلامی معاشرہ کی توقع کیسے کر سکتے ہیں‘ جب پارلیمنٹ کو شرعی قوانین پر برتری حاصل ہو تو وہ معاشرہ اسلامی نہیں بن سکتا مثلاً آپ کی پارلیمنٹ سود کی حرمت کے خلاف بل پاس کر سکتی ہے‘ سود کو جائز کر سکتی ہے، آپ کی پارلیمنٹ ناٹو افواج کو راستہ دے سکتی ہے ‘ آپ کی پارلیمنٹ اللہ کے کسی بھی شرعی قانون کو معطل قرار دے سکتی ہے‘ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ یہاں پر حکمرانی عوام کی ہے‘ اللہ کے نظام اور قرآن کی نہیں ایسی صورت میں اسلام سے شکوہ کرنا بے جا ہوگا‘ سب سے پہلے نظام الٰہی کو نافذ کرنا ہوگا پھر اسلامی معاشرے کے ثمرات دیکھنے کو ملیں گے۔مولانا ذاکر احمد نقشبندی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 31 اسلامی طرز زندگی کو فروغ دینے پر زور دیتا ہے‘ اس میں اس بات کی تشریح کی گئی ہے کہ ریاست اسلام کے بنیادی اصولوں اور بنیادی تصورات کے مطابق عوام کو زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرے گی اور سنت کی تعلیم کو ضروری قرار دیا جائے گا‘ عربی زبان سیکھنے کی ترغیب دینا اور قرآن کی صحیح طباعت اور اشاعت کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے‘ اسلامی اخلاق و اقدار کو فروغ دینے کے ساتھ فحاشی و عریانیت، سود کی بیخ کنی کرے گی جبکہ آرٹیکل 31 کی وضاحت میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ریاست زکوٰۃ، عشر، اوقاف اور معاشرے میں نماز کے نظام کو قائم کرے گی تاکہ عوام اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کرسکیں‘ آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مسلمان نفس کی بنیاد پر اسلام کے احکامات پر عمل کریں بلکہ انہیں اسلام میں پورا داخل ہونے کا حکم دیتا ہے‘ آرٹیکل31 اسلامی طرز زندگی کو فروغ دیتا ہے‘ مسلمانوں کو قرآن اور سنت کی تعلیمات پر عمل کرنے کے قابل بناتا ہے‘ آرٹیکل 62 ارکان پارلیمنٹ کے لیے اہلیت کے معیارات کا تعین کرتا ہے جس میں اچھا کردار، اسلامی تعلیمات کا علم اور اخلاقی پستی یا مالی عدم استحکام میں ملوث نہ ہونا شامل ہے‘ آرٹیکل 63 رشوت خوری، بدعنوانی یا پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو قانون ساز اسمبلی کے لیے نااہل قرار دیتا ہے‘ مگر المیہ یہ ہے کہ حکمران، بیوروکریسی، جنہیں معاشرے کو اسلامی اصولوں پر چلانا تھا وہ خود اسلام اور اسلامی قوانین سے نا آشنا ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانے کے لیے مختلف رکاوٹوں کا سامنا ہے‘ ان تمام رکاوٹوں سے نبر آزما ہونا ریاست کی ذمے داری ہے‘ پاکستان کے اسلامی آئین کا مقصد اسلامی اصولوں پر مبنی اسلامی جمہوریہ قائم کرنا ہے تاہم اسلام اور اسلامی قوانین سے ریاست کی ناواقفیت ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے‘ مؤثر نفاذ ریاست پر انحصار کرتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔