لبنانی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی

104

 

حزب اللہ اور اسرائیل کی لڑائی نے لبنانی معیشت کو شدید مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ صنعتی اور تجارتی مراکز کی سرگرمیاں کم ہوتے ہوتے کم و بیش صفر کی سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ لبنان کے کئی شہروں میں زندگی ابھی کل تک رواں دواں تھی مگر اب ہر طرف سناٹے کا راج ہے۔

انڈیا ٹوڈے نے خصوصی رپورٹ میں بتایا کہ لبنان کے متعدد شہروں میں لوگ گھروں تک محدود رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بڑے شہروں کے تجارتی مراکز کی رونق برائے نام رہ گئی ہے۔ جاگتی راتیں ناپید ہیں۔ دن میں بھی وہ گہما گہمی دکھائی نہیں دے رہی جو دو ڈھائی ماہ پہلے تک ہوا کرتی تھی۔

حزب اللہ کی لڑائی جنوبی لبنان تک محدود تھی مگر اب ایسا نہیں ہے۔ حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے اور اس کی حملہ کرنے کی صلاحیت ختم کرنے کے عزم کے ساتھ اسرائیلی فوج نے دارالحکومت بیروت اور دیگر شہروں کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

اس وقت لبنان میں کہیں بھی کسی بھی وقت اسرائیلی حملوں کا خطرہ موجود ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں میں خوف و ہراس بڑھا ہے اور وہ معمول کی معاشی سرگرمیوں میں بھی ڈھنگ سے حصہ نہیں لے پارہے۔ بڑے شہروں کے تجارتی مراکز یا تو بند ہیں یا پھر اُن میں سرگرمیاں انتہائی محدود ہیں۔ صنعتی ادارے بھی ڈھنگ سے کام نہیں کر پارہے۔

لبنان کی معیشت کا مدار بہت حد تک سیاحت پر بھی ہے مگر اسرائیلی حملوں نے سیاحت کے شعبے کو بھی انتہائی متاثر کیا ہے۔ بیرونی سیاحوں کی آمد رک گئی ہے۔ درجنوں ممالک نے اپنے باشندوں اور بالخصوص سیاحوں کو لبنان کے سفر سے روک دیا ہے۔ ٹریول ایڈوائزریز کے اجرا سے لبنان کے لیے مشکلات بڑھی ہیں۔

جنوبی لبنان اور بیروت نیز اُس کے نواح میں صورتِ حال بہت زیادہ خراب ہے۔ جنوبی لبنان میں اب کسی بھی وقت کہیں بھی حملے ہوسکتے ہیں اور ہو ہی رہے ہیں۔ لبنان کے طول و عرض میں لوگ سفر سے بھی گریز کر رہے ہیں کیونکہ کچھ پتا نہیں کہ کب کہاں بمباری ہو جائے۔

لبنانی حکومت بھی شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ ایک طرف سیاسی بحران ہے اور دوسری طرف سلامتی کو لاحق خطرات ہے۔ سلامتی سے بڑھ کر اب سالمیت کا معاملہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ کئی علاقوں میں صورتِ حال اتنی خراب ہے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اسرائیلی فوج جنوبی لبنان میں داخل ہوچکی ہے۔ لبنانی فوج سے اسرائیلی فوج کا ٹاکرا اب تک نہیں ہوا ہے۔ حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کی اس لڑائی میں لبنانی فوج بظاہر کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتی۔

لبنانی معاشرے میں سیاسی اور معاشرتی تقسیم بھی بڑھ رہی ہے۔ لوگ معاشی مشکلات کے باعث شدید الجھن میں مبتلا ہیں۔ حزب اللہ کی حمایت عوام میں ہے مگر اِتنی زیادہ بھی نہیں جتنی دکھائی جارہی ہے۔ لبنان میں آبادی کا ایک بڑا طبقہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اسرائیل سے جنگ لڑی جائے، اُس پر حملے کیے جاتے رہیں۔ جنوبی لبنان سے اسرائیل پر تواتر سے حملے کیے جاتے رہے ہیں۔

لبنانی معاشرے میں حزب اللہ کی حمایت کا گراف گر رہا ہے۔ اس وقت جنوبی لبنان اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے کم و بیش بارہ لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ لاکھوں بچوں کی تعلیم رُل گئی ہے۔ حزب اللہ اور اسرائیل کی لڑائی میں نقصان لبنانی باشندوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ حزب اللہ کے لیے لبنان ایک مضبوط گڑھ رہا ہے مگر اب رائے تبدیل بھی ہو رہی ہے۔ اسرائیل بے لگام ہوکر لبنان کو نشانہ بنارہا ہے۔ ہلاکتوں کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ کم و بیش پانچ لاکھ لبنانی گھرانے معاشی امکانات سے محروم اور اپنے گھروں سے دور امداد پر انحصار کر رہے ہیں۔ عالمی اداروں کی طرف سے ملنے والی امداد کے بغیر اُن کے لیے زندہ رہنا بھی دشوار ہو جائے گا۔

لڑائی رکوانے کے حوالے سے لبنانی حکومت پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ فرانس اور روس سمیت کئی طاقتور ممالک لبنان میں لڑائی رکوانے کے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ ممالک امداد بھی دے رہے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکا پر بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے تاکہ لڑائی رکوائی جاسکے۔ لبنانی عوام اس لڑائی سے سخت نالاں اور بدظن ہیں۔