کالے ہرن کی پجاری بشنوئی برادری کی کہانی

114

بھارت کی ریاست راجستھان کی بشنوئی برادری کو چند برسوں کے دوران بشنوئی گینگ کی بدولت غیر معمولی شہرت ملی ہے۔ بشنوئی گینگ منظم جرائم سے جُڑے ہوئے گینگسٹرز کا ٹولا ہے۔ اس ٹولے کے سربراہ لارنس بشنوئی نے بالی وڈ کے معروف فلم اسٹار سلمان خان کو قتل کرنے کی ٹھانی ہے۔

سلمان خان نے 1998 میں راجستھان کے شہر جودھپور کے نزدیک فلم ’’ہم ساتھ ساتھ ہیں‘‘ کی شوٹنگ کے دوران، لوگوں کے منع کرنے کے باوجود، کالے ہرن کے شکار کی ٹھانی اور دو کالے ہرن مار گرائے۔ یہ علاقہ بشنوئی برادری کا ہے۔ بشنوئی برادری صدیوں سے کالے ہرن اور دیگر جنگلی حیات کی محافظ رہی ہے اور خصوصی طور پر کالے ہرن کو اس برادری میں تقدس حاصل رہا ہے اور وہ اس کی پوجا بھی کرتی رہی ہے۔

کالے ہرن مارنے پر عدالت نے سلمان کو پانچ سال قید کی سزا سنائی مگر پھر بالی وڈ کی مداخلت پر معاملہ رفع دفع ہوا۔ اب پھر یہ کھڑاگ کھڑا ہوگیا ہے۔ گزشتہ دنوں ممبئی میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے لیڈر اور سابق ریاستی وزیر بابا صدیقی کو قتل کردیا گیا۔ بشنوئی گینگ نے اس قتل کی ذمہ داری کا دعوٰی کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلمان خان سے تعلق رکھنے اور اس کی مدد کرنے والوں کو ختم کردیا جائے گا۔

بشنوئی گینگ کا سرغنہ لارنس بشنوئی اس وقت احمد آباد کی سابرمتی جیل میں ہے۔ تفتیش کاروں سے اس سے پوچھ گچھ کی بنیاد پر ایک ہٹ لسٹ بھی جاری کی ہے جس میں سلمان خان کے علاوہ بھارتی پنجاب کے مقتول گلوکار سِدھو موسے والا کے مینیجر شگن پریت سنگھ کا نام بھی شامل ہے۔

جس وقت سلمان خان نے دو کالے ہرن مار گرائے تھے کہا جاتا ہے کہ تب لارنس بشنوئی شاید پانچ سال کا رہا ہوگا۔ اس نے تبھی قسم کھائی تھی کہ کالے ہرنوں کی ہلاکت کا بدلہ لے گا۔ یہ بات اب تک واضح نہیں کہ کالے ہرنوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کی بات درست ہے یا بشنوئی گینگ سلمان خان کا نام استعمال کرکے شہرت بٹور رہا ہے، دھاک بھٹارہا ہے۔ یہ گینگ اب گیارہ ریاستوں میں منظم جرائم کی وارداتیں کر رہا ہے۔

بشنوئی برادری محض کالے ہرن اور چنکارا کہلانے والے ہرنوں کے تحفظ ہی کی علم بردار نہیں بلکہ وہ صدیوں سے جنگلی حیات اور جنگلی پیڑ پودوں کی حفاظت کرتی آئی ہے۔ یہ بندھن ساڑھے پانچ سو سال پر محیط ہے۔

بشنوئی برادری پندرہویں صدی عیسوی میں گرو جمبیشور (جمباجی) نے قائم کی تھی۔ اس برادری کی ہدایت کے لیے 29 اصول رُو بہ عمل ہیں۔ گرو جمبیشور کی تعلیمات میں جنگلی حیاتیات اور پیڑ پودوں کے تحفظ پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔

بشنوئی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کالے ہرن کو بہت محترم گردانتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔ کالے ہرن کو وہ اپنے گرو جمبیشور کے اوتار کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ 2018 میں بشنوئی برادری کے ایک رکن رام سوروپ نے انڈیا ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بشنوئی کوئی مذہب یا فرقہ نہیں بلکہ گرو جمبیشور کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ان کے 29 اصولوں میں ایک درختوں اور جنگلی جانوروں کے تحفظ سے متعلق ہے۔ کسی جانور کو بچانے کے لیے بشنوئی برادری کے لوگ اپنی جان بھی قربان کرسکتے ہیں۔ سلمان خان کے کیس میں بشنوئی برادری نے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ بشنوئی برادری کی خواتین کالے ہرن کے بچوں کو اپنی اولاد کی طرح پالتی ہیں۔

بشنوئی برادری کے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر اُن کے اعمال اچھے ہوں گے تو وہ اگلے جنم میں کالے ہرن کا روپ دھاریں گے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا (لاس اینجلس) کے تاریخ دان ونے لعل نے بشنوئی برادری سے متعلق اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ گرو جمبیشور نے اپنے پیروؤں سے کہا تھا کہ وہ کالے ہرن میں اوتار لیا کریں گے۔ ایسی کئی واقعات ملتے ہیں جن کے مطابق بشنوئی برادری کے لوگوں نے درختوں کو بچانے کے لیے اپنی زندگی بھی خطرے میں ڈال دی۔

راجستھان کے انیل بشنوئی کو کم و بیش 10 ہزار کالے ہرن اور چنکارا ہرن بچانے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار وہ کالے ہرن کی جان بچانے کے لیے اس حد تک گیا کہ ایک شکاری نے اُس کے سر پر بندوق کی نالی رکھی دی۔ انیل بشنوئی ’’بیٹر انڈیا‘‘ کو بتایا تھا کہ میں ڈر تو گیا تھا مگر گرو جمبیشور کی تعلیمات کے مطابق کالے ہرن کو بچانے کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنا لازم تھا۔ قسمت اچھی تھی کہ محکمہ جنگلات کی ٹیم اُس طرف آ نکلی اور جان بچ گئی۔

1730 میں بشنوئی برادری کے 362 افراد جودھپور کے نزدیک جنگل میں درختوں کی کٹائی رُکوانے کے لیے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ یہ قتلِ عام جودھپور کے مہاراجا ابھے سنگھ کے حکم پر ہوا تھا۔ نئے محل کی تعمیر کے لیے لکڑی حاصل کرنے کی غرض سے کھیجری نامی درخت گرانے سپاہیوں کو بھیجا گیا تھا۔ امرتا دیوی کی قیادت میں بشنوئی برادری کے لوگوں نے مزاحمت کی اور موت کو گلے لگایا۔ اِن لوگوں نے درختوں کو گلے لگاتے ہوئے جان دے دی تھی۔ اس قتلِ عام ہی سے اکتساب کرتے ہوئے 1973 میں چپکو تحریک شروع کی گئی تھی۔

بشنوئی برادری اپنے علاقوں میں سورج غروب ہوتے ہی کالے ہرنوں کے چارے اور دانے کا اہتمام کرتی ہے۔ ان علاقوں میں کالے ہرن آزادانہ گھومتے ہیں۔ بشنوئی برادری کے بیشتر افراد تھر کے صحرا میں رہتے ہیں۔ تھر کا صحرا پاکستان کے سندھ اور بھارت کے راجستھان میں منقسم ہے۔ بشنوئی برادری کے گھروں کو صحرا میں نخلستان قرار دیا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں درخت بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ کالے ہرنوں کے لیے چارہ اور پانی سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ خشک سالی کے دنوں میں اُنہیں تکلیف نہ پہنچے۔ کہا جاتا ہے کہ بشنوئی برادری کی عورتیں جھنڈ سے الگ ہو جانے والے کالے ہرن کے لاوارث بچوں کو اپنا دودھ بھی پلاتی ہیں۔