پاکستان اور روس کے درمیان بارٹر ٹریڈ معاہدہ

154

پاکستان اور روس نے گزشتہ روز ماسکو میں ایک مفاہمت نامے پر دستخط کر کے باضابطہ بارٹر ٹریڈ معاہدہ کر لیا اور اس حوالے سے روسی کمپنی ایل ایل سی ایسٹارٹار تا ایگر ٹریڈنگ اور پاکستانی فرمزفیمٹی ٹریڈنگ کمپنی میس کے اور نیشنل فروٹ پراسیسنگ فیکٹری نے سامان کے تبادلے کے لیے معاہدے کیے جن میں چنے، چاول، پھل سمیت مختلف اشیاء کا لین دین شامل ہے۔ یہ پیش رفت ماسکو میں منعقد ہونے والے پہلے پاکستان روس تجارتی اور سرمایہ کاری فورم میں ہوئی، جو پاکستان اور روس کے درمیان دو طرفہ تجارتی تعلقات میں ایک اہم واقعہ بن گیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے نج کاری، بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ کمیونی کیشن عبد العلیم خان کی قیادت میں فورم میں 60 پاکستانی کمپنیوں کے وفد نے شرکت کی، جس نے اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے اور نئے کاروباری مواقع تلاش کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تجارت، تعاون اور باہمی ترقی کے امکانات کے بے شمار راستے موجود ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں تلاش کیا جائے اور عمل درآمد کیا جائے۔ پاکستان سے ماسکو تک یہ پورا وسط ایشیا ایک قدرتی تجارتی بلاک کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن عالمی استعمار اور سیاسی مفادات نے اس خطے کو تقسیم کر کے رکھا۔ اب جبکہ خطے کے تمام ممالک بھی تعاون اور تجارت کے فروغ کا فیصلہ کر چکے ہیں تو لازم ہے کہ ایک دوسرے کو ہر طرح کی تجارت میں ترجیح دی جائے اور باہمی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے مل کر ترقی کی شاہراہ پر سفر طے کیا جائے۔ اس خطے کے تمام ممالک کی ترقی و خوشحالی ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک روس بارٹر ٹریڈ معاہدہ دونوں ملکوں ہی نہیں پورے خطے کے لیے مفید ثابت ہوگا حالانکہ پاک روس تجارتی معاہدہ مارچ 2023 میں ماسکو میں طے پایا تھا۔ جس کے تحت پاکستان روس کو چاول، دوائیں، پھل اور کھیلوں کے سامان سمیت 26 اشیاء برآمد کرے گا جبکہ روس سے پٹرولیم مصنوعات ایل این جی، گندم اور دھاگے سمیت 11 اشیاء درآمد کی جائیں گی۔

بہت سے ممالک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ توانائی کے پائیدار ذرائع آج کی دنیا میں بہت اہم ہیں، اور ان تک رسائی ہر ایک کی زندگی کے امکانات کو بہتر بنا سکتی ہے۔ کسی قوم کی ترقی کا ایک اہم جزو توانائی کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ متعدد اعداد وشمار سے پتا چلتا ہے کہ اگر توانائی تک سستی رسائی کو آسان بنایا جائے تو انسانی ترقی اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کے سنگم پر واقع پاکستان کو اسٹرٹیجک فائدہ حاصل ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان کی توانائی کی صورتحال مثالی نہیں ہے کیونکہ ریاست درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس کے پاس توانائی کے اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ خود کو برقرار رکھ سکے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب اور توانائی کے اخراجات میں تبدیلی کے نتیجے میں درآمدی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے توانائی کے سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے، جیسا کہ بجلی کی مسلسل بندش، گیس کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ، بڑھتی ہوئی قیمتیں، اور ایندھن کی خراب سپلائی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ توانائی قومی سلامتی کا ایک اہم جزو ہے، پاکستان کی موجودہ صورتحال توانائی کے عدم تحفظ کے طور پر سب سے بہتر ہے۔

پاکستان اپنی توانائی کی استعداد پر قابو پانے کے لیے علاقائی رابطوں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ تیل، ایل این جی اور دیگر پٹرولیم مصنوعات کے لیے توانائی سے مالا مال خلیجی ریاستوں جیسے، قطر اور کویت پر بھی انحصار کرتا رہا ہے۔ تاہم، قریبی، روس اور ایران کو تلاش کرنا سستا ہے جبکہ گزشتہ دنوں پاکستان اور روس کے درمیان تیل و گیس معاہدوں پر اتفاق ہو گیا ہے۔ روس کے وزیر توانائی نکولے شو یکنوف کی قیادت میں آنے والے وفد نے وزرا کی سطح کے مذاکرات کو اطمینان بخش قرار دیا۔ معاہدوں کے بعد توانائی تیل اور گیس کی فراہمی کے لیے دونوں ملک ورکنگ گروپ بنا رہے ہیں۔ ان ورکنگ گروپوں میں ان شرائط کو ترتیب دیا جائے گا جن کے تحت پاکستان روس سے توانائی مصنوعات حاصل کرے گا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس بنیادی کام کے بعد دو طرفہ تجارت و تعاون کے امکانات پہلے سے روشن نظر آنے لگے ہیں۔ پاکستان نے روسی وفد کو تیل و گیس کی رسد و طلب کا ڈیٹا فراہم کیا ہے۔ صدر پیوٹن نے اس موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا اور عالم اسلام میں روس کا اہم شراکت دار ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو مزید مستحکم بنایا جائے گا۔

روسی وفد نے پاکستانی حکام کے ساتھ 11 سو کلومیٹر طویل پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن پروجیکٹ کے منصوبے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ یہ گیس پائپ لائن کراچی سے لاہور تک بچھائی جائے گی۔ پاکستان اور روس نے دو معاہدوں پر دستخط 2015 اور 2021 سے کر رکھے ہیں۔ ان معاہدوں کے مطابق اسٹریم گیس پائپ لائن 2.5 ارب ڈالر سے 2022 میں بچھانے کا کام شروع ہونا تھا لیکن یوکرین کے ساتھ جنگ کے باعث روس پر لگائی گئی پابندیوں اور پاکستان میں حکومت تبدیل ہونے سے یہ منصوبہ بروقت شروع نہ ہو سکا۔ پاکستان 2004 سے بدترین انرجی بحران کا شکار چلا آ رہا ہے۔ قومیں بحران کا سامنا کرتی ہیں اور پھر اس سے نمٹ کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔ توانائی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے آلات میں جدت اور پالیسی میں بہتری کی ضرورت تھی جسے نظر انداز کیا گیا۔ جب سے عمران خان کی حکومت ختم ہوئی ہے عوام روسی تیل کا سنتے آرہے ہیں اور اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو اس کا کریڈیٹ دے رہے ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ اس تیل کے ملک میں آنے کے بعد غریب آدمی کی زندگی پر کتنا فرق پڑے گا۔ یہ تیل صاف ہونے کے بعد ہی مارکیٹ میں ہوگا اور اس کی قیمتوں میں بھی چند روپے کی کمی بھی آئے گی مگر کیا یہ کی اشیاء خور ونوش کو بھی سستی کر پائے گا۔ مزید برآں یہ حقیقت کہ پاکستان میں خام تیل کو ریفائن کیا جائے گا اس سے نہ صرف توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تعاون کو بڑھانے کے لیے ضروری تکنیکی فائدہ ملے گا بلکہ توانائی کی فراہمی کا ایک سستا ذریعہ بھی شامل ہوگا۔

بین الاقوامی انڈیکس پر قیمتوں کے مقابلے سستی قیمت پر یہ کھیپ ایک مناسب موقع پر آئی ہے۔ پاکستان میں تیل اور پٹرولیم مصنوعات مہنگی قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں حالانکہ سبسڈی اور موخر ادا ئیگی کے ماڈیولز پر درآمد کیے جاتے ہیں۔ اس سے حکومت وقت زیادہ فائدہ اٹھانے والی ہے کیونکہ وہ ٹیکسوں کی شکل میں حاصل ہونے والی آمدنی اور سرچارجز کی زر کثیر کماتی ہے کیونکہ یہ تیل اسے ریونیو کا سب سے بڑا حصہ فراہم کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر یہ پیداوار کی لاگت کو متاثر کرتی ہے اور قیمتوں میں اضافے کے علاوہ بر آمدات غیر مسابقتی ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بھاری سبسڈی والا روسی تیل کس حد تک فرق کر سکتا ہے اس کا اندازہ فی الوقت نہیں لگایا جاسکتا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب بھی پٹرولیم و ایل این جی کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ٹرانسپورٹ کرائیوں اور مہنگائی میں اس تناسب سے اضافہ کر دیا جاتا ہے مگر جب یہ قیمتیں اعتدال پر آتی ہیں تو پھر اس تناسب سے ٹرانسپورٹ کرائیوں اور مہنگائی میں کمی نہیں کی جاتی جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ لہٰذا حکومت وقت کو نہ صرف پٹرولیم کی قیمتیں کم کرنا ہوں گی بلکہ اس کے نتیجے میں شہریوں کو ثمرات بھی منتقل کرنا ہوں گے۔ جب تک حکومتی اقدامات عوام کی زندگی بدلتے نظر نہیں آئیں گے اس وقت تک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ روسی تیل کی آمد اس ملک کے لیے نیک فال ثابت ہوئی ہے۔