دو ڈھائی برس ہی تو گزرے ہیں جب روس نے یوکرین پر فوج کشی کی تھی تب پورا یورپ روس کی مذمت میں ڈوب گیا تھا۔ سرحدوں کی حرمت کی دہائی دی جانے لگی۔ ایک خود مختار ملک کے خلاف جارحیت ناقابل برداشت قرار دی گئی۔ عالمی قوانین فرط جذبات سے دہرائے جانے لگے لیکن اب جب کہ مشرق وسطیٰ میں معاملہ مسلمانوں اور مسلم ممالک کا ہے تو پورا مغرب منافقت کی ملمع کاری سے بوجھل اور جامد نظر آرہا ہے۔ دو ہفتوں کی شدید بمباری کے بعد یکم اکتوبر سے یہودی وجود نے لبنان کی سرحد عبور کرکے فوج کشی کا آغاز کردیا ہے لیکن وہ عالمی برادری جو دراصل یورپی ممالک کا ہی پرتو ہے اسے ایک محدود حملہ قراردے رہی ہے جسے اسرائیل کے حق دفاع کے عین مطابق کہا جارہا ہے۔ یہودیوں کے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کرنے کے خلاف پچھلے سال 7 اکتوبرکو جب حماس نے اہل غزہ کے ایسے ہی حق دفاع کا استعمال کیا تھا تو اسے جارحیت قرار دیا گیا تھا جس کے جواب میں اب تک اسرائیل لا کھوں مسلمانوں کو شہید اور زخمی اور لاکھوں کو بے گھر کرچکا ہے۔ پورے غزہ کو ایک میدان میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں کسی عمارت کا وجود باقی نہیں ہے لیکن سب گوارا سب پزیرا کیونکہ معاملہ مسلمانوں کا ہے۔
فلسطین میں یہودی وجود ایک مصنوعی خیال تھا، ایک بدترین بات، ایک ظالمانہ سیاسی چال۔ یورپ نے یہودیوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرنے اور ان کے وجود سے منسلک تمام شیطانی پیچیدگیوں اور ناقابل برداشت مسائل کو عربوں پر ٹھونستے ہوئے ایک ایسے خطہ میں منتقل کردیا جسے یورپی مقاصد نے ان کا وطن بنانے کا تہیہ کررکھا تھا۔ اسرائیلی جارحیت اور امریکی حمایت ایک ایسا معاملہ ہے جس میں کسی منصفانہ اخلاقی پہلو کا گزر نہیں۔ لبنان میں جنگ بندی کے تمام تر امریکی دعووں کے باوجود اسرائیل کو یقین تھا کہ لبنان میں پیش قدمی کے موقعے پر امریکا اس کا معاون اور ہم قدم ہوگا۔ وائٹ ہائوس سیکورٹی کونسل کے ترجمان کے مطابق ’’(لبنان میں) فوج کشی اسرائیل کے حق دفاع کے عین مطابق ہے جس کا مقصد (اسرائیلی) عوام کا تحفظ اور عوام کی اپنے گھروں کو واپسی یقینی بنانا ہے۔ ہم حزب اللہ اور تمام ایرانی پشت پناہیوں کے حامل دہشت گرد گروہوں کے خلاف اسرائیل کے حق دفاع کی بھرپور حمایت کرتے ہیں‘‘۔
فلسطین کی سرزمین پر مسلمانوں کے ممکنہ اخلاقی حق پر مغرب (یورپ اور امریکا) کی آمادگی دیوانگی پر مبنی ایک محال خیال ہے۔ یہودی عربوں کو محض سیاسی دشمن خیال نہیں کرتے وہ انہیں مٹانے کے درپے ہیں۔ اسرائیل صرف غزہ، فلسطین اور لبنان پر حملہ آور نہیں ہے وہ یمن اور شام میں بھی اپنے اہداف پر حملے کررہا ہے۔ یرغمالیوں کی واپسی کے لیے حالات سازگار بنانے کے بجائے نیتن یاہو جنگ کو وسعت دے کر اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔ ایک سال سے سرکش مسلمانوں کے خلاف انتہائی درجے کی خونریز بمباری اور جنگ کے باوجود وہ ایک ہدف بھی حاصل نہ کرسکا۔ حماس جیسی ایک چھوٹی سی ملیشیا کو ختم کرنے اور اہل غزہ کی جنگی استعداد کو زمین بوس کرنے میں وہ بے بس نظر آتا ہے۔ رہی یرغمالیوں کی بازیابی اس کا بھی کہیں دور دور تک امکان نہیں۔ جب کہ اسرائیل میں اس کی مقبولیت ناقابل بیان حدتک پستی کو چھورہی ہے۔ وہاں عوام احتجاج اور مظاہروں کے ساتھ اس کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ اس جنگ میں ناکامی کی صورت میں مقدمات کی بھرمار اور سزائیں نیتن یاہو کا مقدر ہوں گی۔ لبنان کے خلاف حملوں میں اسے اپنے مسائل کا حل نظر آتا ہے۔
2006 میں لبنان پر فوج کشی کے نتیجے میں اسرائیل کو جس شرمناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا تب سے وہ لبنان پر حملے کی تیاریوں میں مصروف موقع کی تلاش میں تھا۔ نیتن یاہو نے ایک سے زیادہ مرتبہ اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی لڑائی کی وجہ سے شمالی اسرائیل میں اپنے گھروں سے بیدخل ہونے والے تقریباً 60 ہزار اسرائیلیوں کی بحفاظت واپسی کا انتظام کرے گا۔ 25 ستمبر کو یہ واضح ہو گیا تھا کہ اسرائیل بہر صورت لبنان میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ حزب اللہ سے اپنے باشندوں کو لاحق خطرے کو کم سے کم تر کر سکے۔ حزب اللہ کے خلاف اس کے پاس معلومات کے ذخیرے موجود تھے جن کو استعمال میں لاکر اس نے حزب اللہ کی قیادت کو اڑا کر رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ نیتن یاہو ایران کو اس جنگ میں ملوث کرنا چا ہتا ہے۔ تہران میں حماس کے قائد اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایران کو جنگ میں گھسیٹنے کی ایک کوشش تھی۔ جس کے بعد اسرائیل کو امید تھی کہ ایران اعلانیہ جنگ میں کود پڑے گا۔ پھر امریکا یہودی وجود کے ساتھ ساتھ ایران پر حملہ کرنے کے لیے مجبور ہوگا۔ اس سے جنگ وسیع ہوکر علاقائی جنگ کی صورت اختیار کرلے، یہودیوں کو اس کی کوئی پروا نہیں۔
فلسطین، یمن، لبنان، عراق اور شام میں ایران بظاہر اسرائیل کے خلاف خطے میں اپنے اثر رسوخ میں اضافے کرنے میں سرگرم رہا ہے۔ اس نے خطے میں مسلح گروہوں سے تعلقات استوار کیے جو اسرائیل کے خلاف اسے ایک حفاظتی حصار فراہم کرتے آئے ہیں۔ اسرائیل اس حفاظتی حصارپر حملہ آور ہے۔ ایرانی جوہری اور عسکری تنصیبات کی تباہی بھی اس کا ہدف ہے۔ ایران اسرائیل کے خلاف تصادم سے گریزاں ہے۔ تاہم اسرائیل اب ایران کو اس مقام پر لے آیا ہے کہ اگر وہ اسرائیل کی دہشت گردی کا جواب نہیں دیتا تو اس کا بھرم اور ساکھ ختم ہو جائے گی۔ اسرائیل کو جواب دینے میں ہی کسی بھی ایرانی حکومت کی ساکھ اور بقا پوشیدہ ہے۔
اسرائیل کے عسکری بجٹ کا سالانہ 10 فی صد امریکا ادا کرتا ہے۔ جنگی حالات میں امریکا کی اسرائیل کو یہ امداد اربوں ڈالر کی فراہمی تک جاپہنچتی ہے۔ اس سال کے آغاز ہی میں امریکا نے اسرائیل کو آٹھ ارب ڈالر کا امدادی پیکیج دیا ہے۔ یہودی وجود کے پاس اپنے وسائل کہیں موجود ہی نہیں ہیں کہ وہ اپنی طاقت سے جنگیں لڑسکے۔ یہ امریکا ہے جو اسرائیل کی جنگیں لڑتا آیا ہے۔ کوئی بھی امریکی صدر ہو وہ امریکی ہتھیار، اسلحہ، پیسہ اور ہر طرح کی حفاظتی گارنٹی اسرائیل کو دیتا آیا ہے لیکن ایک علاقائی جنگ کا امریکا بھی متحمل نہیں ہوسکتا جس کی اسے ایک بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی جب کہ یوکرین جنگ میں بھی وہ پھنسا ہوا ہے۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ اسرائیل کے ساتھ ہمدردانہ تعلقات کے نتیجے میں عرب ممالک میں ان کے حکمرانوں کے خلاف جذبات پھٹ پڑیں۔ عرب انقلاب کا تجربہ اس کے لیے کچھ زیادہ خوش گوار نہیں تھا جب وہ اپنے حامیوں کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا تھا۔ پھر خطے میں دیگر قوتیں بھی میدان میں کودتی نظر آرہی ہیں۔ چین نے ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے اور ان کے درمیان معاہدہ کرانے میں جو کردار ادا کیا جس میں امریکا کو یکسر فراموش کردیا گیا دو دہائیوں پہلے اس کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے۔
عرب ممالک ہوں یا ایران وہ طویل عرصے سے مغربی سازشوں کا سامنا کررہے ہیں۔ امریکا ہو یا کوئی اور یورپی ملک یا کوئی سپرپاور روس اور چین وغیرہ مسلمانوں کے باب میں کوئی کچھ بھی اچھا نہیں کرسکتا سوائے ان کی تباہی اور بربادی کے۔ کیا یہی مسلمانوں کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ مسلمانوں کی نجات ان کے اتحاد میں ہے۔ ایک ریاست اور ایک مٹھی بننے میں ہے۔ جیسا کہ خلافت راشدہ کے وقت سے وہ تھے۔