1988ء کا تذکرہ ہے جو تاریخ کا درخشاں ستارہ ہے کہ سپر طاقت کہلانے والے سوویت یونین روس پاکستان کے گرم پانی ہتھیانے کا خواب سجائے افغانستان میں داخل ہوا تو امت مسلمہ کے دنیا بھر سے شوق شہادت سے معمور نوجوانوں کی بدولت یہ خواب بھاپ کی صورت اُڑ گیا۔ دنیا نے تسلیم کیا کہ اس کارنامے میں پاکستان کا کردار بڑھ کر تھا اور یہ بڑی اسلامی ریاست کی تشکیل کے منصوبے کا ایک حصہ تھا۔ اس کے بعد یہ طے شدہ تھا کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے روس جیسی راہ دکھانی ہے اور افغانیوں کا وعدہ تھا قرض چکائے گا مگر پھر کیا ہوا، وہی جو شاہ احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید افغان کے مجاہدین کے ساتھ صوبہ سرحد اور حال کے کے پی کے غدار خوانین نے اس نازک مرحلہ میں کیا جب یہ سکھوں سے نبرد آزما تھے اور اس نازک مرحلے میں پیٹھ میں چھرا گھونپ کر یہ گناہ بخشوانے بھی بے شرم ہو کر چلے آئے تو شاہ احمد شہید نے ایک تاریخی جملہ کہا۔ ’’مجھے تم سے ایسی ہی نفرت ہے جیسی اپنی قے سے ہوتی ہے‘‘۔ آپ ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ تاریخ پھر قبائل اور افغان حکمرانوں نے دہرائی ہے کہ یہ پاکستان میں تخریب کاری، غارت گری کراکر ہندوتوا فکر کے حامل بھارت کے ہاتھ اسی طرح مضبوط کررہے ہیں جیسے جنگ آزادی میں سکھوں کے ہاتھ مجاہدین سے غداری کرکے کیے اور پھر وہی عذرلنگ کہ ہمارا ان دہشت گردوں اور غداروں سے کچھ لینا دینا نہیں۔
پاکستان نے بھی یہ حسن سلوک دیکھ کر کہہ دیا ہے ہمیں تم سے اتنی ہی نفرت ہے جتنی اپنی قے سے، نکلو یہاں سے خالی کرو ہمارے معدہ کو ہم نے تمہیں اپنے پیٹ کے نوالوں میں شریک کیا تم گرانی کا باعث بن گئے۔ قرآن پاک کا خوب ارشاد ہے ’’ہم نے تم کو ذات برادری میں اس لیے تقسیم کیا کہ تم پہچانے جائو کہ تم مسعود ہو یا نامسعود‘‘۔ کاش یہ پرکھ شاہ اسماعیل و رفقا کے سلوک کو دیکھ کر کرلی جاتی تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ پاکستان ان دوست نما دشمن کے ہاتھوں قیمتی جانوں اور املاک کا نقصان نہ ہوتا۔ سیانے کہتے ہیں کہ کبھی ہاتھوں کے بوئے کانٹے پلکوں سے چننے پڑتے ہیں۔ یوں اب اس صورت حال سے پاکستان دوچار ہے اور ان لوگوں کے حسد کا شکار ہے جن کے حسد سے پناہ مانگی ہے۔ حسد کا شکار ان پڑوسی ممالک سے جنہوں نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں کوئی کسر کسی مرحلہ میں نہیں چھوڑی۔ اب ہمارے ایک پڑوسی کو پھر امت مسلمہ کا اتحاد یاد آیا ہے کہ جب خطرہ اس کے سر پہ منڈلایا ہے جو کل تک پاکستان کے لیے بلوچستان میں درد سر پیدا کرنے کا باعث تھا اور اب بھی ہے جس نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر کی رسوائی اور امریکا کی خوشنودی کا سامان کیا یہ کسی کا انکشاف نہیں بلکہ پرویز مشرف کا بیان ہے۔ اس نے امریکا اور بھارت کی آشیر باد کو زندہ جاوید رکھنے کے لیے گوادر بندرگاہ کے مقابل چاہ بہار بندرگاہ بنا ڈالی، کوئی بات نہیں یہ ان کے ضمیر اور ملکی مفاد کا مسئلہ ہوگا اور ہر ملک کو اپنے فیصلہ کرنے کا حق ہے۔
کون نہیں جانتا کہ اس ملک کے پروردہ نے روس کی مدد سے شام میں قتل عام مخالف مسلمانوں کا کیا۔ اب بہادری کا یہ عالم ہے کہ اسرائیل پر جوابی حملے سے 72 گھنٹے قبل امریکا کو مطلع کیا کہ ہم حملہ کرنا چلے ہیں روک سکو تو روک لو۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ اب پھر مسلمہ اُمہ اور جہاد فی سبیل اللہ کی آڑ میں تحفظ اور اُسی کردار کا تقاضا پڑوس سے ہورہا ہے جو 1979ء میں افغانستان سے کیا گیا۔
اب پھر پاکستان نازک موڑ پر کھڑا ہے اس کو وہی حکمت عملی اپنانی چاہیے جو امریکا کی افغانستان میں جارحیت کے مرحلے میں افرادی جہادی قوت کو اس معرکہ آرائی کا ایندھن نہ بنا کر اپنائی اور یہ بھی ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ امریکا کو پاکستان میں اڈے دے کر اسرائیلی طیاروں کی اُڑان کا سامان کیا جائے۔ یہ بھی تاریخ کا درخشاں باب ہے کہ اسرائیل نے بھارت سے مل کر پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کا پلان بنایا تھا جو تائید ایزدی اور بصیرت خدادا سے پاکستان کے حکمراں ضیا الحق نے ناکام بنادیا اور شرمساری بھارت اور اسرائیل کی مقدر ہوگئی، اب پاکستان پھر آزمائش کے اہم دوراہے پر کھڑا ہے، ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھے اور اپنا برا بھلا سوچ کر فیصلہ کرے، مشتری ہوشیار باش! کسی نے خوب کہا ہے۔
لاکھ تو پیار کے منتر پڑھتا رہ ساجد
جن کی فطرت میں ڈسنا ہو وہ ڈسا کرتے ہیں