یہ آئینی ترمیم نہیں انتقامی ترمیم ہے

373

پاکستانی پارلیمنٹ نے 1973 میں متفقہ طور پر آئین منظور کیا تھا اور اس کی متفقہ منظوری میں اگرچہ اپوزیشن کا خصوصی کردار تھا،لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت سارا کریڈٹ خود لیتی رہی ہے، اور اب اس متفقہ آئین کا حلیہ بگاڑنے میں بھی یہی پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر جوڑ توڑ کررہی ہے، مفادات سمیٹنے والی جماعتوں کا ریٹ بڑھ گیا ہے کیونکہ حکومت کے نمبر پورے کرنے کے لیے دودو اور چار چھ نشستوں والی پارٹیوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے، اب وہ شرائط منواکر مفادات سمیٹیں گی،پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کہا ہے کہ عدالتی اصلاحات بہر صورت لائیں گے‘کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔یہاں پہنچ کر بلاول نے آئینی ترمیم کا اصل مقصد بیان کیا کہ وہ دراصل اپنی والدہ کے خلاف عدالت کے فیصلوں کا انتقام لینا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے 90 کی دہائی میں بے نظیر کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا، میں عدلیہ کو بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں، عدلیہ نے کیا کیا؟ مشرف کو تحفظ دیا، جو عدالت آئین کی محافظ ہے وہی عدالت ایک جنرل کو اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کا آئین بنائے اور ہم انہیں مائی لارڈ کہیں ؟ وہ اس قدر غصے میں کہہ رہے تھے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا کہ ہم برابری نہ لے سکیں، افتخار چودھری نے ایسا نظام وضع کیا کہ کسی کو انصاف نہیں ملا ہاں جج کو مل جاتا ہے، سکھر جیل میں ہماری خواتین بند کی گئیں‘ ہمارے والدین کو جیل میں رکھا گیا، ہمارے مقدمات سکھر سے اسلام آباد منتقل کردیے گئے اور آپ کہتے ہیں ہم کہیں مائی لارڈ۔انہوں نے کہا کہ ہمارا طریقہ مفاہمت کی سیاست کا ہے تو یہ سمجھتے ہیں ہم ہر ظلم بھول گئے؟ ہم حساب لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ وقت آئے گا جب ہر ظلم کا جواب دینا ہوگا۔ تو یہ ہے آئینی ترامیم کرکے عدلیہ کا بیڑا غرق کرنے کا پس منظر، یعنی یہ آئینی ترمیم نہیں انتقامی ترمیم ہے، اور انتقامی جذبے سے جو کام کیا جائے اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں ہوتے۔ یہ جو نیب ترامیم ہیں اور انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ہیں یہ سب کسی کے خلاف استعمال کی نیت سے بنائی گئیں اور ان کے قانون میں ترمیم کی گئی یہ قوانین اور ترامیم بھی مسئلہ بنی ہوئی ہیں،بلاول زرداری تو کھل کر،سامنے آگئے ہیں وہ عدالتی نظام کی اصلاح نہیں کرنا چاہتے عدلیہ سے انتقام لینا چاہتے ہیں، اور اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت اپنی مرضی کا عدالتی نظام لانا چاہتی ہے،شنگھائی تعاون کانفرنس کے انعقا دکے دوران یقینا ملک میں پْر امن ماحول ہونا چاہیے لیکن اس کی آڑ میں اگر آئینی ترمیم لا کر حکومت اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتی ہے تو یہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ ہم آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہیں، تمام حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی اب اس پر گفتگو ختم کر دینی چاہیے، ہماری اپوزیشن جماعتوں سے درخواست ہے کہ آئینی ترمیم کے اس گورکھ دھندے میں نہ پڑیں۔ موجودہ چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے اور نئے چیف جسٹس کے آنے کے بعد آئینی ترمیم پر بات چیت کی جائے۔ فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ اور بیورو کریسی سمیت تمام اداروں کو آئین کی پابندی کرنی چاہیے۔ بلاول اچھی طرح جانتے ہیں کہ 73 کے آئین کی متفقہ منظوری میں جماعت اسلامی کا کردار نہایت اہم تھا اراکین تو اس کے چار تھے لیکن انہوں نے اپنی بولی نہیں لگوائی اور نہ قیمت وصول کی بلکہ قومی مفاد کو مقدم رکھا اور آئین منظور کروایا،حافظ نعیم کا تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشورہ صائب ہے،صاف نظر آرہا ہے کہ سارا کام قومی مفاد کے بجائے بد نیتی کی بنیاد پر کیا جارہا ہے،اپنی مرضی کی عدالت بنا کر عدالتی نظام تباہ کیا جارہا ہے،اور جن ممالک میں عدلیہ کام نہیں کرتی ان کی تباہی یقینی ہوتی ہے۔ عدلیہ سے حکمرانوں کا خوف بتارہا ہے کہ وہ اصلاح نہیں فساد چاہتے ہیں۔