لاہور کالج معاملہ: کوئی متاثرہ نہیں ، اے ایس پی شہر بانو نے الزامات رد کردیے

103

لاہور: پنجاب پولیس نے ایک نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حوالے سے کوئی متاثرہ فرد سامنے نہیں آیا، جس کی بنیاد پر لاہور میں ایک روز قبل پرتشدد احتجاج ہوا تھا۔

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر طالبہ کے مبینہ زیادتی کے الزامات وائرل ہونے کے بعد ایک طلبہ گروپ نے نجی کالج کے باہر مظاہرہ کیا۔ احتجاج کے دوران طلبہ اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جن میں کم از کم 28 افراد زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں احتجاج کو عارضی طور پر ملتوی کیا گیا، اور آج دوبارہ احتجاج کا اعلان کیا گیا۔

یہ بات اہم ہے کہ پولیس نے کالج کے ایک سیکیورٹی گارڈ کو گرفتار کیا تھا، جس پر طالبہ سے زیادتی کا الزام تھا، اور تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ تاہم، ملزم نے الزامات کی تردید کی، اور پولیس بھی اس کے خلاف کوئی ثبوت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے اے ایس پی دفاع، شہربانو نقوی نے کہا کہ جس طالبہ کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ واقعہ سے 10 دن پہلے ہی ہسپتال میں داخل ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس کی میڈیکل رپورٹس دستیاب ہیں، اور ہسپتال کا ریکارڈ بھی موجود ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں اسکول جانے کی تیاری کے دوران گر کر زخمی ہوئی تھی۔

اے ایس پی نے وضاحت کی کہ کالج میں دو طالبات کے نام ایک جیسے تھے، ان میں سے ایک مکمل طور پر صحت یاب تھی، جبکہ دوسری ہسپتال میں زیر علاج تھی۔ اگر کسی اور طالبہ کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آیا ہو تو پولیس نے پہلے ہی مختلف پلیٹ فارمز فراہم کیے ہیں جہاں ایسے واقعات کی رپورٹنگ کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، “اگر کوئی خاندان سمجھتا ہے کہ کوئی متاثرہ فرد موجود ہے تو وہ سامنے آئے، پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے کیوں کترائے گی ۔؟”

افسر نے یہ بھی بتایا کہ اسکول انتظامیہ کو معلوم تھا کہ طالبہ اپنے ہی گھر میں گری تھی، اور وہ اس صورتحال سے مطمئن تھے، اسی لیے معاملہ رفع دفع ہو چکا ہے۔

شہربانو نقوی نے مزید کہا کہ پولیس نے ان طلبہ سے کہا ہے جو اس واقعے کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں کہ وہ ایسے شواہد فراہم کریں جن سے ثابت ہو کہ کسی طالبہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، کیونکہ پولیس کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں جس سے جنسی زیادتی کا الزام ثابت کیا جا سکے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سی سی ٹی وی فوٹیج ڈیلیٹ کی گئی ہے، تو انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پولیس کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں اور لوگوں سے شواہد فراہم کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ مزید کارروائی کی جا سکے۔

دوسری طرف، پنجاب اسمبلی کے باہر چیئرنگ کراس مال روڈ پر بھاری پولیس تعیناتی کے باوجود طلبہ نے احتجاجی دھرنا دیا۔ مظاہرین، جن میں نجی کالج کے سابق طلبہ اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے طلبہ شامل تھے، “ہمیں متاثرہ کے لیے انصاف چاہیے” کے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے۔

یہ احتجاج ’پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو‘ کے بینر تلے ہوا، جو مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کا اتحاد ہے۔ اس اتحاد نے ججز اور طالبات پر مشتمل ایک انسانی حقوق کمیٹی اور طلبہ کو ہراسانی اور دیگر مسائل کے لیے الگ ادارے بنانے کا مطالبہ کیا۔

اسی دوران، صوبے کے مختلف شہروں، جیسے ملتان، جہانیاں اور ظفروال میں طلبہ نے الگ الگ مظاہرے کیے۔ ملتان میں کچھ طلبہ نے مبینہ طور پر ایک کالج میں توڑ پھوڑ کی، جس پر پولیس نے انہیں گرفتار کیا اور لاٹھی چارج کیا۔ ظفروال میں طلبہ نے ٹائر جلا کر ٹریفک بلاک کر دی۔

طالبہ کے خاندان کی جانب سے الزامات کی تردید

جب لاہور میں احتجاج جاری تھا، تو طالبہ کے خاندان نے سامنے آ کر الزامات کی تردید کر دی۔ اے ایس پی نقوی کے ساتھ جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں لڑکی کے والد اور چچا نے کہا کہ “ہماری بیٹی کے ساتھ کوئی جنسی زیادتی نہیں ہوئی ہے ۔”

انہوں نے مزید کہا، “ہم سوشل میڈیا پر احتجاجی ویڈیوز دیکھ کر حیران ہیں۔” لڑکی کے چچا نے وضاحت کی کہ وہ اس وقت ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں زیر علاج ہے، جہاں وہ اپنی کمر کی چوٹ کا علاج کروا رہی ہے جو اپنے گھر میں گرنے کے باعث لگی تھی، اور اس کے نام پر ہونے والے احتجاج بے بنیاد ہیں۔

اے ایس پی نقوی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ جھوٹی خبروں پر مبنی الزامات میں کسی کو نہ پھنسائیں، اور زور دیا کہ پولیس ہمیشہ ایسے واقعات میں خود ہی مقدمہ درج کرتی ہے۔

پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی

اس دوران، پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ 6 رکنی کمیٹی کی سربراہی چیف سیکریٹری کریں گے، اور اس میں ہوم سیکریٹری، ایڈووکیٹ جنرل، ہائر ایجوکیشن سیکریٹری، اسپیشل ایجوکیشن سیکریٹری، اور اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر سیکریٹری شامل ہوں گے۔

یہ کمیٹی واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی، جس میں کالج انتظامیہ کا فوری ردعمل اور پولیس کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات شامل ہوں گے، اور اپنی رپورٹ 48 گھنٹوں کے اندر وزیر اعلیٰ کو پیش کرے گی۔