ماہ و سال نہیں گننا چاہتا تاہم جب سے کوچہ صحافت میں قدم رکھا ہے اپنے اس فیصلے پر حیران ضرور ہوتا ہوں لیکن کیا کیجیے کہ اب جو ہونا تھا وہ ہوچکا بہتر یہی ہے کہ اپنے اس فیصلے پر پچھتاوا نہ ہی کیا جائے تو اچھا ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے شروع میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی تنقید کرتا تو برا لگتا، مگر اب مدح و ذم کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ صحافتی زندگی میں بے شمار بیورو کریٹوں سے ملاقات ہوئی، تعلقات بھی قائم ہوئے، دوستی بھی رہی، اب بھی ہے، ایک بات سیکھی ہے کہ اچھا بیورو کریٹ کیسا ہوتا ہے۔ اچھے بیوروکریٹ کی صرف ایک ہی نشانی ہے کہ جب بھی اس سے کوئی مشورہ مانگا جائے تو اپنی عقل اور بساط کے مطابق کسی قسم کے تعصب سے بالا تر ہوکر مشورہ دے۔ مشورہ مان لیا جائے تو فبہا‘ نہ مانا جائے تو سرکار کے فیصلے پر عمل کیا جائے یا ذہن نہ مان رہا ہو تو استعفا دے کر گھر چلا جائے۔ اپنی صحافتی زندگی میں درجنوں ایسے بیوروکریٹ دیکھے ہیں جو استعفا دے کر گھر چلے گئے۔ درجنوں ایسے بھی دیکھے ہیں کہ جن کے مشورے پر اگر عمل نہیں ہوا تو پھر بھی وہ نوکری کرتے رہے۔ اچھا بیورو کریٹ ایسا ہی ہوتا ہے، وہ مشورہ نہ مانے جانے پر دفتر میں محفل سجا کر ’’کڑ کڑ‘‘ نہیں کرتا بلکہ مشورے کے برعکس ہونے والے فیصلے پر عمل درآمد کرتا ہے۔
پاکستان کے امریکا میں ابتدائی دنوں میں سفیر بن کر جانے والے ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی سے بہت دوستی رہی ہے، کیا کمال کے انسان تھے۔ بے شمار ایسے فیصلے ہیں جن کے لیے ان کا دیا ہوا مشورہ مانا گیا اور بہت سے ایسے بھی فیصلے ہیں جو ان کے مشورے کے برعکس ہوئے دونوں جگہ انہوں نے اپنی انا کو لگام دیے رکھی اور کام کرتے چلے گئے بالکل اسی طرح مرحوم آغا شاہی سے متعدد ملاقاتیں رہیں۔ وہ بہت جلد اعتماد کرنے والے انسان نہیں تھے تاہم جب اعتماد بن جاتا تو گویا ایک تاریخ ہے جس سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے۔ وہ مزاج کے تیز تھے اسی لیے بہت جلد جنرل ضیاء الحق سے الگ ہوگئے۔ لیکن یہ ان کی بھی رائے رہی کہ اچھا بیورو کریٹ وہی ہوتا ہے جو کسی مصلحت کے بغیر مشورہ دے اور مشورے کے برعکس فیصلہ ہو تو اسے تسلیم کرے، ایک بات وہ کہا کرتے تھے کہ جو بھی لیڈنگ رول ادا کر رہا ہے اسے آس پاس کے حالات کی بھی مکمل آگاہی ہونی چاہیے، انہیں علم ہونا چاہیے کہ ہمارے ملک کے آس پاس کیا ہورہا ہے۔ ایران، چین، بھارت اور افغانستان میں کیا سوچ پائی جاتی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے پیچھے کون ہے؟ بھارت دہشت گردی میں کس قدر ملوث ہے۔ یہ سو فی صد ملوث ہے اور مقامی سہولت کاروں کی مدد سے دہشت گردی کرارہا ہے وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان ترقی کرے، یہاں امن قائم ہو، ہر اس شخص کے پاس یہ معلومات ہونی چاہیے، صحافتی شعبے میں توکم از کم ہونی چاہیے تاکہ وہ لکھتے ہوئے اپنے منصب سے انصاف کرسکے۔
دو سفارت کار نیاز اے نائیک اور ریاض اے نائیک بھی کمال کے سفارت کار تھے۔ مزاج کے تیز تھے مگر پوری تاریخ تھے۔ عبدالستار بھی ہمارے وزیر خارجہ رہے ہیں۔ جنرل مشرف کی حکومت میں وزیر خارجہ رہے نائن الیون کے بعد ملک میں حالات بدلے تو انہیں کچھ محتاط دیکھا ورنہ وہ دوستی نبھاتے تھے۔ جنرل مشرف سے قبل ملک میں نواز شریف کی حکومت تھی ایٹمی دھماکہ کیا تو اس کے بعد وزیر خارجہ تبدیل کیے گئے۔ سرتاج عزیز کو وزیر خارجہ بنایا گیا وہ مشورہ لینے کے لیے راجا ظفر الحق کے پاس پہنچے راجا صاحب بہت ہی شفیق انسان ہیں۔ ان کے خاندان میں درجنوں افراد فوج میں اعلیٰ عہدوں پر رہے مگر تحمل مزاج اور بردبار انسان ہیں۔ سرتاج عزیز جب ان کے پاس ملاقات کے لیے آئے تو اتفاق سے ان کے پاس ہی موجود تھا میں نے اجازت چاہی مگر انہوں نے کہا کہ آپ بیٹھے رہے۔ وہ آپس میں بات چیت کرتے رہے۔ مجھے آج تک نہیں پتا کہ انہوں نے کیا بات کی ایک مشورہ انہوں نے مانگا کہ اب بطور وزیر خارجہ مجھے کیسے کام کرنا چاہیے؟ راجا صاحب نے کہا کہ آپ سے ہزار سوال ہوں تو آپ کو ایک کا جواب دینا ہے مطلب کہ بہت کم بولنا ہے۔ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ اچھا صحافی بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کہ بہت کم بولے مگر جب بھی لکھے تو لکھے خوب۔
آج کل ہمیں صحافتی شعبے میں بڑے بڑے نام ملتے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ حکومت کا فلاں فلاں فیصلہ ان کے مشورے کی وجہ سے ہوا، فلاں کو منصب ان کی وجہ سے ملا اور فلاں ان کی وجہ سے ہٹایا گیا یہ کوئی صحافت ہے؟ صحافی کا کام حکومتوں میں بندے لگوانا یا ہٹوانا ہوتا ہے یا خبر دینا ہے۔ یہ کام تو بروکرز کا ہے انہیں ہی کرنے دیں تو بہتر ہوگا۔ یوٹیوبرز نے تو حد ہی کردی ہے ہر پندرہ منٹ کے بعد بریکنگ نیوز، اور ہر بار اپنی ہی کہی ہوتی بات کی نفی کرتے چلے جاتے ہیں۔ بس پی ٹی آئی کی حمایت میں جو بھی بولتے چلے جائو وائرل ہوتے چلے جائو گے۔ پیسہ ہی پیسہ، آج کل تو کتاب لکھنے کا بہت رواج چل پڑا ہے۔ اپنے لکھے ہوئے کالم اکٹھے کیے انہیں جوڑ کر ایک کتاب بنا دی اور بن گئے صاحب کتاب۔ بہت سے سابق بیوروکریٹس بھی ایسے ہیں جنہیں کتاب لکھنے کا شوق چرایا ہے ان لوگوں کے لیے ایک مشورہ ہے۔ مانیں یا مانیں، انہیں چاہیے کہ وہ وطن کے دفاع اور سالمیت کے امور، جنہیں ریاست کے راز کہا جاتا ہے انہیں افشاء کیے بغیر اپنے مشاہدات اور تجربات آزادی سے بیان کریں۔ دنیا بھر میں یہی چلن رائج ہے ہمارے سینئر سیاست دانوں۔ سابق ججوں اور سابق سفارت کاروں کو ضرور ایسی کاوش کرنی چاہیے تاکہ ہم نوجوان نسل تک کم از کم یہ معلومات تو پہنچا دیں کہ قائد ملت نواب زادہ لیاقت علی خان کیوں قتل کیے گئے۔ ایوب خان نے کیوں مارشل لا نافذ کیا۔ مشرقی پاکستان ہم سے کیسے الگ ہوا؟ کوئی صحافی اس موضوع پر ہی لکھ دے کہ صحافتی تنظیموں میں عروج کب تھا اور زوال کی وجوہات کیا ہیں؟ ہے کوئی جو خود احتسابی کے لیے آگے بڑھے؟ آج ہو کیا رہا ہے؟ بس ایڈ ہاک ازم ہے۔ حکومت دیکھ لیں یا اپوزیشن کو دیکھ لیں۔ ذرائع ابلاغ کے کسی بھی شعبے کو دیکھ لیں یا حکومت کے اس نظام کو دیکھ لیں جو میڈیا کنٹرول کے لیے بنا یا گیا ہے۔ اس ملک میں ایسے بھی پرنسپل انفارمیشن آفیسر گزرے ہیں جو سپر سیڈ ہوئے تو دفتر میں بیٹھے بیٹھے ہیں اپنی یونیفارم فوج کے طے شدہ رولز کے مطابق ’’فوج‘‘ کے حوالے کرکے گھر چلے آئے۔ کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے دنیا انہیں جنرل مجید ملک (مرحوم)کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اللہ ان کی قبر نور سے بھر دے آمین۔ مسلم لیگ(ق) کی حکومت کے دور میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا کہا گیا کہ وہ میٹرک نہیں ہیں، وجہ کیا تھی؟ مسلم لیگ(ق) کی اس وقت کی زور آور شخصیت انہیں بلدیاتی نظام میں کسی عہدے پر نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ آج وہی شخصیت اپنے گھر میں اجنبی بن چکی ہے اور پورا خاندان ایک طرف ہے اور وہ ایک طرف، اپنے گھر میں ہی تنہا ہو کر رہ گئے ہیں۔