جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے اتوار کا دن ہے اور اکتوبر کی 13 تاریخ ہے جو کچھ بھی نکات اور تجزیے سامنے آئیں گے وہ آج کی خبروں کے تناظر میں ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ جس وقت آپ یہ پڑھ رہے ہوں اس وقت صورتحال بہت کچھ بدل چکی ہو۔ 15 اکتوبر کو شنگھائی کانفرنس کی تیاریاں تکمیل کے مراحل تقریباً طے کرچکی ہیں۔ اسلام آباد میں اسکول و دفاتر میں تین دن کی چھٹی کا اعلان ہوچکا ہے فوج کے حوالے تو پہلے ہی کیا جاچکا ہے دنیا کے دو بڑے ممالک چین اور روس کے سربراہان کے علاوہ بھی کئی دیگر ممالک کے سربراہان اور کئی ممالک کے اعلیٰ عہدیادارن یا اہم وزراء اپنے ملک کی نمائندگی کررہے ہیں بھارت کے وزیر خارجہ آرہے ہیں ایران کا اعلیٰ سرکاری وفد شریک ہورہا ہے اس وقت مشرق وسطیٰ جس آگ میں جل رہا ہے اور یہ کہ بین الاقوامی جرائد و رسائل میں اعلیٰ پائے کے صحافی اور دانشور حضرات تیسری عالمی جنگ کی پیش گوئی کررہے ہیں ان خوفناک عالمی ماحول میں اس شنگھائی تعاون تنظیم کی یہ کانفرنس بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے پوری دنیا کی نظریں اس کانفرنس میں ہونے والی سرگرمیوں، ملاقاتوں، رہنمائوں کی تقاریر اور فیصلوں پر لگی ہوئی ہیں۔ اس کانفرنس کی میزبانی کرکے پاکستان کا وقار بھی اقوام عالم میں نمایاں ہوا ایسے میں وہ انڈیا جو کرکٹ کھیلنے کے لیے اپنی ٹیم کو پاکستان نہیں بھیجتا ہے اسی انڈیا نے اپنے وزیر خارجہ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ویسے تو پاکستان کی طرف سے نریندر مودی کو شرکت کا دعوت نامہ بھیجا گیا تھا۔
اسلام آباد میں ایک طرف تو اس بین الاقوامی ایونٹ کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں دوسری طرف چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے سرگرمیاں عروج پر ہیں اور یہ بڑے دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گئیں ہیں اس آئینی ترمیم کے مسودے کے خدوخال بھی کچھ کچھ نکل کر بلکہ نکھر کر سامنے آگئے ہیں اتحادی حکومت کے مسودے اور مولانا فضل الرحمن کے مسودے میں بس تھورا ہی سا فرق رہ گیا بظاہر تو یہ تھوڑا سا ہے لیکن بادی النظر میں بہت بڑا ہے حکومت کہہ رہی ہے کہ آئینی عدالت بنانا ہے مولانا کہتے ہیں کہ آئینی عدالت کے بجائے آئینی بنچ بنایا جائے ڈیڑھ دو سو کیسز کے لیے اتنی بڑی کھکیڑ پالنے کی کیا ضرورت ہے۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ ججوں پر مشتمل یہ آئینی بنچ ہونا چاہیے اس کی دیگر تفصیلات تو سامنے نہیں آئیں۔ حکومت کے مسودے میں آئینی عدالت کے فیصلوں کو کہیں چیلنج نہیں کیا جاسکتا جبکہ آئینی بنچ کے فیصلوں کے بارے میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ اس بنچ کے فیصلوں کو کہیں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ مسودے میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کا تقرر سینیارٹی پر نہیں بلکہ تین سینئرز میں سے کسی ایک کا تقرر ہوگا جو آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے گی جو صوبائی آئینی عدالتیں قائم کی جائیں گی ان کے فیصلوں کو وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج کیا جاسکے گا۔ یہ اور اسی طرح کے تمام فیصلے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ہوئے جس کی صدارت پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے کی اب اس کا اگلا اجلاس 17 اکتوبر کو ہوگا۔
17 اکتوبر کی تاریخ بڑی اہمیت اختیار کرگئی ہے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا حتمی اجلاس بھی اس دن ہوگا۔ اسی تاریخ کو عدالت عظمیٰ میں اس آئینی ترمیم کے خلاف پاکستان بار کونسل کے عابد زبیری کی طرف سے جو پٹیشن داخل کی گئی ہے اس کی سماعت بھی ہے۔ نجم سیٹھی اپنے تجزیے میں کہہ رہے تھے کہ ایسا لگتا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ بھی میدان میں آگئے، آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ایسی آئینی پٹیشن کی سماعت ہوئی ہو جو ابھی وقوع پذیر بھی نہیں ہوا یعنی یہ کہ چھبیسویں ترمیم ابھی بحث و مباحث کے مرحلے میں ہے پارلیمنٹ سے اس کی منظوری نہیں ہوئی اور عدالت میں پٹیشن آگئی اور اس کو عدالت نے سماعت کے لیے منظور بھی کرلیا۔ دراصل چاروں صوبائی ہائی کورٹوں میں بھی پٹیشن داخل کی گئی اور انہیں بھی سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا پشاور پائی کورٹ تو بہت اس حوالے سے پرجوش تھا اس لیے حکومت کو خطرہ ہوا کہ کسی صوبے کی اعلیٰ عدلیہ سے اس کے خلاف فیصلہ نہ آجائے کہ پارلیمنٹ یہ ترمیم منظور نہیں کرسکتی اس لیے فوری طور سے عدالت عظمیٰ نے عابد زبیری کی پٹیشن سماعت کے لیے منظور کرلی حالانکہ اور بھی لوگوں نے اس طرح کی پٹیشن داخل کی ہوئی تھیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ تشکیل دیا گیا ہے جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال بنچ میں شامل ہوں گے اس بنچ پر بھی اعتراضات ہیں پریکٹس اور پروسیجر کمیٹی کا اس سلسلے اجلاس کب اور کہا ہوا اس میں کون شریک ہوا اور بنچ کا فیصلہ کیسے ہوگیا۔ حکومت بڑی پر اعتماد ہے کہ 17 اکتوبر کے خصوصی پارلیمانی اجلاس میں مولانا حکومتی مسودے پر تیار ہوجائیں گے یا ’’تیار کرایا‘‘ جائے گا دوسری طرف حکومت کو یہ بھی یقین ہے کہ اسی دن الیکشن کمیشن سے مخصوص نشستوں کا فیصلہ بھی اسپیکر کے لکھے گئے خط کے مطابق آجائے گا اس لیے یہ ترمیم آسانی سے منظور ہوجائے گی۔
چھبیسویں ترمیم کے حوالے سے تحریک انصاف کا موقف یہ تھا کہ اس جعلی اسمبلی کو جو فارم 47 پر تشکیل پائی ہے اسے کسی آئینی ترمیم کرنے کا استحقاق ہی حاصل نہیں ہے پھر جب یہ سلسلہ آگے بڑھا اور مولانا کا حکومت کی مخالفت میں اس ترمیم کے حوالے سے سخت موقف سامنے آیا تحریک انصاف کے رہنمائوں سے بھی اس حوالے سے مولانا کی کئی پے درپے ملاقاتیں ہوئیں تو انہوں نے بھی یعنی تحریک انصاف نے مسودے پر اپنے اعتراضات نوٹ کرائے اور خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں عمر ایوب بھی شریک ہوئے تحریک انصاف کے علی ظفر نے کہا کہ آئینی عدالت کے جج کا تقرر وزیراعظم کی سفارش پر صدر صاحب کریں گے اس کا مطلب ہے کہ سارے فیصلے حکومت کی ایما کے مطابق ہوں گے اسی طرح عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کا تقرر سینئر جج کے بجائے تین سینئر ججوں میں سے کسی کا ہوگا تحریک انصاف کو خطرہ یہ ہے کہ اگر 25 اکتوبر سے پہلے یہ ترمیم منظور ہوگئی تو حکومت جسٹس فائز عیسیٰ کو آئینی عدالت کا جج بنائے گی اور عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کے لیے جو تین سینئر جج ہوں گے ان میں جسٹس منصور اور جسٹس منیب چونکہ ہم خیال جج ہیں اور انہوں نے بارہ جولائی کا فیصلہ بھی دیا تھا اس لیے جو تیسرے جج ہوں گے وہ حکومت کے حامی ہوں گے لہٰذا ان کا تقرر کردیا جائے گا، یہ وہ اندیشے ہیں جن کی وجہ سے تحریک انصاف کو اپنا سیاسی مستقبل خطرے میں نظر آرہا ہے۔
15 اکتوبر کو ڈی چوک پر تحریک انصاف نے جس احتجاج کا اعلان کیا ہے اس سے حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی ہے ویسے تو اس مسئلے پر خود تحریک انصاف میں اختلاف ہے چیئر مین بیرسٹر گوہر علی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈا پور پارٹی کی سیاسی کمیٹی میں اس اقلیت میں ہیں جو 15 اکتوبر کو ڈی چوک میں احتجاج کرنے کے خلاف ہے پی ٹی آئی میں موجود سمجھدار عناصر احتجاج کی کال واپس لینے کی کوشش کررہے ہیں اسد قیصر، حامد خان اور روف حسن بھی اس اقلیتی گروپ میں شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میزبانی کے موقع پر پارٹی کا ایسا احتجاج پاکستان کے مفاد میں نہیں علی محمد خان بھی اس فیصلے سے ناخوش ہیں۔ شہباز گل، حماد اظہر، خالد خورشید اور حافظ فرحت اس احتجاج کے حق میں ہیں۔ بلاول زرداری نے کہا ہے کہ غیر ملکی وفود اور عالمی میڈیا کی موجودگی میں تماشا لگانا قابل مذمت ہے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی نہیں ملک دشمن جماعت ہے خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملکی بقا اور سلامتی ریڈ لائن ہونی چاہیے سب سے سخت بیان احسن اقبال کا ہے کہ کراچی ائر پورٹ پر خودکش حملہ اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر پی ٹی آئی کے احتجاج کا فیصلہ ایک ہی رائٹر کا لکھا ہوا اسکرپٹ ہے۔ بہر حال حکومت نے کہا ہے کہ اسلام آباد پر یلغار روکنے کے لیے طاقت استعمال کریں گے۔ ادھر پی ٹی آئی کی قیادت نے ایک شرط عائد کی ہے کہ اگر 15 اکتوبر سے پہلے عمران خان تک رسائی دے دی جائے تو وہ یہ احتجاج موخر کردیں گے۔ اگر پی ٹی آئی نے یہ احتجاج موخر نہ کیا تو اس بات کا خدشہ ہے کہ تحریک انصاف تنہائی کا شکار ہو جائے گی۔