گریٹر اسرائیل کی بازگشت

323

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری کشیدگی کا ایک سال پورا ہوتے ہی اسرائیلی حکام کی طرف سے گریٹر اسرائیل کے یہودی تصورات کی باتیں اور دعوے سامنے آنے لگے ہیں۔ اس سلسلے میں اسرائیل کے وزیر خزانہ بذیلیل سموٹریج نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ میں کھل کر اعلان کرتا ہوں کہ میں ایسی یہودی ریاست کا حامی ہوں جو دریائے نیل سے دریائے فرات تک پھیلی ہو۔ شاید لوگ میری بات کو سنجیدہ نہ لیں لیکن ہم جو کہتے ہیں وہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ یہودی اس تصوراتی ریاست کو سرزمین موعود قرار دیتے ہیں یعنی جس کا وعدہ ان کی مذہبی کتابوں میں کیا گیا ہے۔ صہیونی وزیر خزانہ کا یہ بیان حقیقت میں قدیم تصور پر مبنی ہے جس کے مطابق بائبل میں ایسی یہودی ریاست کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس تصور کے تحت مجوزہ یہودی ریاست میں دریائے نیل کے سے آگے مصر کا علاقہ اردن، شام، لبنان، سعودی عرب اور عراق شامل ہیں۔ یہی نہیں بلکہ غزہ میں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں کے بازوئوں پر گریٹر اسرائیل کے نقشوں پر مشتمل بیجز بھی سجے ہوئے ہیں۔

جدید قومی ریاستوں کے دور میں کئی ملکوں کی زمینوں کو کلی یا جزوی طور پر ہتھیانے کا یہ ارادہ کوئی اور ملک ظاہر کرتا تو امریکا اور مغربی ممالک قانون بین الاقوام کا سہارا لے کر اس کو جارح قرار دے کر نجانے کیا کیا طوفان برپا کر چکے ہوتے مگر اسرائیل مغرب کا لاڈلہ اور پسندیدہ ہونے کی وجہ سے ایسے نقشوں کی تشہیر بھی کرتا ہے اور ایسے ارادے بھی ظاہر کرتا ہے مگر دنیا ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ حد تو یہ وہ ممالک بھی اس پر کوئی سخت ردعمل ظاہر کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں جن کا وجود ذہنی عیاشی پر مبنی اس تصور کے باعث خطرات کی زد میں آتا ہے۔ اسرائیلی وزیر کے اس بیان پر ان تمام عرب ملکوں کی طرف سے کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ یہ کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں موندھنے کا انداز ہی عرب دنیا کا المیہ بن کر رہ گیا ہے۔ ان کو اس کمال مہارت کے ساتھ داخلی بکھیڑوں میں ڈال دیا گیا ہے وہ ان میں خودی، خود اعتمادی اور خدا اعتمادی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ان میں جہاں شعلہ بننے کی صلاحیت دکھائی دی تھی ان کو ایک ایک کرکے نہایت بے رحمی سے منظر سے غائب کیا گیا۔

سعودی عرب کے شاہ فیصل سے شروع ہونے والی کہانی عراق کے صدام حسین اور لیبیا کے معمر قذافی پر جا کر ختم ہوئی۔ یہ سب غیر فطری موت کا شکار ہوئے۔ تیل کو طاقت اور ہتھیار بنانے کا عملی مظاہرہ کرنے والے شاہ فیصل بہت ایک سنساتی ہوئی گولی کا شکار ہو کر منظر سے غائب کر دیے گئے تھے اور یوں عرب اور مسلمان دنیا میں اتحاد کا نیوکلیس اسی وقت ختم ہو گیا تھا۔ بعد میں اسرائیل کو مختلف ادوار میںآنکھیں دکھانے والے صدام حسین اور معمر قذافی عرب بہار کے نام سے ایک پراسرار لہر کا شکار ہوئے اور ان کے ساتھ نہایت ذلت آمیز سلوک کیا گیا۔ عرب بہار کا ایک ہی نتیجہ امریکا کی مرضی ومنشا کے خلاف آیا تھا وہ تھا مصر میں امریکا کے آزمودہ اتحادی حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ اور اس کے بعد مصر کے انتخابات میں محمد مرسی کی صدارت عرب بہار کا ایک نامطلوب اور ناپسندیدہ نتیجہ تھا امریکا نے عرب ملکوں کی مدد سے اس غلطی کی اصلاح کرنے میں زیادہ وقت ضائع نہیں کیا اور ایک سال کے بعد ہی محمد مرسی کی حکومت غیر فطری انجام سے دوچار کر دی گئی بعد میں محمد مرسی بھی قید میں ایک غیر فطری موت کا شکار ہوئے۔ شام کے بشار الاسد بھی اسرائیل کے زاویے سے ایک ناپسندیدہ کردار تھے جنہیں عرب بہار کی لہروں کی نذر کرنے کی بھرپور کوشش ہوئی مگر روس نے اپنے اس پرانے اتحادی گھرانے کو بچانے کے لیے فوجی کمک بھیج کر بشار الاسد کو دوسرے ریڈیکل عرب حکمرانوں کے انجام کا شکار ہونے سے بچا لیا۔

نائن الیون کے بعد امریکا اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اب اسے کرم خوردہ عرب بادشاہتوں کے لاشے کندھے پر اُٹھانے کے بجائے عرب دنیا میں جمہوریت کو متعارف کرنا چاہیے مگر مصر میں جمہوریت سے جو چہرے اُبھرے وہ امریکا کے ناپسندیدہ تھے اس لیے امریکا نے عرب دنیا میں جمہوریت کا سودا فروخت کرنے کا ارادہ ترک کرکے آمرانہ حکومتوں کو ہی قطع وبرید کے ساتھ قبول کرنے کا راستہ اپنالیا۔ امریکا کی خطے میں اپنی کوئی عرب پالیسی نہیں بلکہ اسرائیل کی پالیسی ہی امریکا کی پالیسی ہے۔ خطے میں اسرائیل کا مفاد ہی امریکا کی اولین ترجیح ہے۔ اب ایران واحد ملک جو اسے خلیج میں چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہے اور اسے بھی نشانے پر رکھ لیا گیا ہے۔ باقی عرب ممالک تو اسرائیل کے آگے ڈھیر ہو گئے ہیں۔ اب تو ظلم یہ ہورہا ہے کہ مسلمان دنیا کے حکمرانوں کی مجبوریوں کا بوجھ مسلمان ملکوں کے عوام پر لادا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کی مصلحتوں اور مجبوریوں کا دائرہ عوام تک لانے کا مقصد مسلمان دنیا میں قبلہ ٔ اوّل اور فلسطین کے حوالے سے حساسیت کو ختم کرنا اور اینٹی اسرائیل جذبات کو سرد کرنا ہے۔ یورپ میں غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج ہو سکتا ہے مگر مسلمان ملکوں میں اس کی اجازت نہیں تھی۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں مسلمان حکمرانوں نے اسرائیل اور نیتن یاہو کا نام لینا گوار ا نہیں کیا۔ انہی مدافعانہ، عاجزانہ اور فدویانہ رویوں نے اسرائیلی قیادت کے حوصلے اس قدر بڑھا دیے ہیں کہ وہ گریٹر اسرائیل کا نعرہ لگا کر خطے میں ایک ایسی جغرافیائی اتھل پتھل کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں جو کم ازکم موجودہ عالمی نظام کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں۔ موجودہ عالمی نظام کے فریم ورک سے باہر کوئی مسلمان ملک یا گروہ نکلے تو اسے گلوبل ٹیررسٹ قرار دیا جاتا ہے اور اقوام متحدہ سے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کرائی جاتی ہے مگر اسرائیل برسرعام ایسے ارادے ظاہر کر رہا ہے اس کے باوجود کہیں سے ردعمل کا اظہار نہیں ہوتا۔

گریٹر اسرائیل اب ایک تصوراتی بات بھی نہیں بلکہ اسرائیل فلسطینیوں کا وجود عملی طور پر مٹاکر اپنے قدیم مذہبی تصورات کے خاکوں میں حقیقت کا رنگ بھر رہا ہے۔ اس راہ میں مزاحمت کی آخری نشانیاں بھی کمزور ہو رہی ہیں۔ حماس اور حزب اللہ جیسی مزاحم قوتوں پر اسرائیل جس انداز سے حملہ آور ہے اس کا نتیجہ زیادہ خوش کن نہیں۔ گریٹر اسرائیل کے راستے میں حماس اور حزب اللہ سمیت دوسری تمام مزاحم قوتیںکسی بیرونی مدد کے بغیر خلا میں کام نہیں کر سکتیں۔ یوں لگتا ہے کہ سیال دولت سے مالامال عرب اور جدید اسلحہ اور فوجوں سے لیس باقی مسلمان دنیا نے فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ کر عملی طور پر گریٹر اسرائیل کے تصور کے آگے خود سپردگی اور سرینڈر راستہ اختیار کیا ہے۔