گرم انڈے

248

چپلی کباب بہت لذیز تھا، میں نے جیسے ہی ایک اور کباب کا آرڈر دینے کے لیے ویٹر کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو میری نظر گرم انڈے بیچنے والے اس معصوم سے بچے پر پڑی، مجھے ایسے لگا کہ وہ ویٹر کی منت کررہا ہے۔ میں نے ویٹر اور اسے اپنے پاس بلالیا۔ ایک کباب اور لے آؤ۔ میں نے ویٹر کو بتایا اور اسے اپنے سامنے موجود کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ آپ ویٹر کو کیا کہہ رہے تھے، میں اُسے کہہ رہا کہ ایک انڈہ خرید لو، اس نے معصومیت سے جواب دیا، ایک انڈہ کتنے کا ہے، جی پندرہ روپے کا، آپ مجھے تین انڈے دیدو اور ایک انڈہ یہیں پر چھیل دو جی اس کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ آئی جیسے اسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو، میں نے اپنے چپلی کباب کا آرڈر کینسل کیا اور دو چائے آرڈر کردیں (جس کی قیمت 50 روپے تھے)، اتنے میں وہ انڈہ چھیل چکا تھا، میں نے وہ انڈہ اور چائے 50 روپے دیتے ہوئے اسے گفٹ کردیا۔

آپ یہ کام کب سے کررہے ہو، جب سے والد صاحب بیمار ہوئے۔ اور پھر اس نے جو کہانی سنائی وہ کچھ یوں تھی کہ اس والد خراد کا کام کرتے تھے، کام کرتے ہوئے لوہے کا ایک ٹکڑا ان کے حلق میں چلا گیا جس کی وجہ سے بیمار ہوکر بستر تک محدود ہوگئے، اب زندگی کی گاڑی ہم دونوں بھائی دس سال سعد اور سات سالہ علی کھینچتے ہیں، ہم لوگ صبح اسکول جاتے ہیں، اسکول سے آکر کوئی چھوٹی موٹی مزدوری کرتے ہیں، شام کو 5 بجے جب گھر آتے ہیں ماں جی نے گرم انڈے تیار کیے ہوتے ہیں ہم انہیں لے کر بیچنے نکل پڑتے ہیں، بھائی ایک جگہ پر کھڑا ہو کر انڈے بیچتا ہے اور میں چھوٹے کولر میں گھوم پھر کر 50 انڈے فروخت کرتا ہوں، اب یہ میری قسمت کہ رات کے بارہ بجیں یا ایک۔

آج سے چند سال قبل لاہور کے سفر کے دوران ایک پٹھان ہوٹل پر پیش آیا یہ واقع گزشتہ روز چائلڈ لیبر کے حوالے ایک رپورٹ پڑھتے ہوئے یاد آگیا، جس کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کے کم و بیش 2 کروڑ بچے اسکول نہیں جارہے۔ کچھ غیر سرکاری اداروں کی تحقیق کے مطابق چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور اسلام آباد میں ہر پانچویں گھر میں ایک بچہ مزدوری کرتا ہے۔ ایک اور غیر سرکاری ذریعے کا دعویٰ ہے کہ پنجاب میں ایک کروڑ 11 لاکھ، سندھ میں 76 لاکھ، خیبر پختون خوا میں 36 لاکھ، بلوچستان میں 31 لاکھ اور اسلام آباد میں 80 ہزار بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ موجودہ حکومت قوانین کی عملدارای کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں کرتی دکھائی دیتی ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ1991، ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز1995 مائنز ایکٹ 1923، فیکٹریز ایکٹ 1934، روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز آرڈیننس 1961، شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ آرڈیننس 1969، مرچنٹ شپنگ آرڈیننس 2001 اور دیگر تمام قوانین جو خصوصی طور پر چائلڈ لیبر سے متعلق ہیں پر عملداری کو یقینی بناکر اسلامی جمہوریہ پاکستان سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن بنائے گی۔ کیونکہ آئین کا آرٹیکل 11 چودہ سال سے کم عمر بچے کو کسی کارخانے یا کان یا دیگر پرخطر جگہ پر ملازمت پر رکھنے سے منع کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 25 ریاست کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کے لیے لازمی اور مفت تعلیم دینے کا انتظام کرے۔

دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ریاست اکیلی کچھ نہیں کرسکتی ہم سب کو ریاست کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے۔ ہم اپنے غیر ضروری اخراجات میں کمی کرکے، اپنے پیزے، نان، کباب، حلوے، بریانیاں پوری نہ سہی ادھوری ہی چھوڑ کر، شادی بیاہ میں سادگی لاکر، غیری ضروری ہوٹلنگ، سیاحت، میں کمی کرکے اپنے اردگرد مزدوری کرتے بچوں کی مدد کرکے نہ صرف چائلڈ لیبر کے خاتمے کا سبب بن سکتے ہیں بلکہ حکومت کے ہاتھ بھی مضبوط کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم اپنی زکوٰۃ، صدقات کو درست انداز میں خرچ کرکے، اور ان کو مستحقین تک پہنچا کر ا پنے اردگرد مزدوری کرتے بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں۔ آئیے ہم عہد کریں کہ اس موسم سرما میں بالخصوص اور ہر موسم میں بالعموم دامے، درمے، سخنے وطن عزیز سے برائیوں کے خاتمے میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔