پاکستان میں حکومت اور مخالفین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے قومی مفادات تک کو قربان کردیتے ہیں اور ان مفادات یا قومی اہمیت کے معاملے کو اپنی سیاست کا مرکز بنا لیتے ہیں ،یہی معاملہ آجکل شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے ساتھ ہورہا ہے، ایک جانب پی ٹی آئی نے عین اجلاس کے موقع پر ڈی چوک اسلام آباد پر احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے ،اور دوسری جانب حکومت نے اسے پاکستان پر کسی دشمن ملک کے حملے سے تعبیر کیا ہے ، حکومتی اقدامات سے ایسا لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کا احتجاج ہو گیا تو شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان اغوا ہو جائیں گے یا انہیں نقصان پہنچایا جائے گا ،بس یہ ایک نامناسب موقع ہے پی ٹی آئی سے بات کرکے اسے دو دن بعد احتجاج پر راضی کیا جاسکتا تھا ،وہ بھی اس کا جمہوری حق ہے ، لیکن حکومت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ احتجاج سے ملک کی سبکی ہوجائیگی ،وہ خود جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں جی 8 جی 20 ،ناٹو وغیرہ کے اجلاسوں کے موقع پر اجلاس کے مقام پر اس ہوٹل یا کانفرنس ہال کے سامنے احتجاج کیا جاتا ہے ان میں حکومتوں کے مخالفین بھی ہوتے ہیں اور ماحولیات یاسول سوسائٹی کے لوگ بھی ہوتے ہیں یہ احتجاج سوئٹزرلینڈ ، برطانیہ امریکا، فرانس ہر جگہ ہوتے ہیں ، بس ان کو احتجاج کرنے کا ڈھنگ آتا ہے ،اور ہمارے لوگ احتجاج کرنے اور روکنے دونوں کے طریقوں سے ناواقف ہیں۔ پھر ایسی ہی صورتحال پیدا ہوتی ہے جو اسوقت ہے ، دونوں جانب سے نمبر اسکور کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔پی ٹی آئی مظلوم کارڈ استعمال کررہی ہے اور خوب کررہی ہے اور حکومت ملکی مفاد کی واحد ٹھیکیدار بنی ہوئی ہے اس کے خیال میں اس کا ہر قدم ملک کے مفاد میں ہے دونوں کو اپنے رویے بدلنے ہونگے، نہ سیاست اس طرح ہوتی ہے نہ حکومت ایسے چلتی ہے،اور حکومت میں بیٹھی پیپلز پارٹی توخود اقوام متحدہ ،اور بین الاقوامی اداروں سے پاکستان کی شکایات کرتی تھی ، پاکستان کی امداد روکنے کی بھی کوشش کی گئی، ایسی سیاست کس مقصد کے لیے ہورہی ہے، دنیا بھر میں بڑے اہم اجلاس ہوتے ہیں سیکورٹی بھی ہوتی ہے لیکن تین روزہ عام تعطیل کرفیو کا سماں عام لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی،حتی کہ میٹرو بسیں بھی بند کردی گئیں اس سے تو یہ تاثر درست ثابت ہورہا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی سے خوفزدہ ہے ، ان اقدامات سے بھی تو ملک کی دنیا بھر میں سبکی ہوتی ہے ، کیا حکمران سمجھ رہے ہیں کہ دنیا کو کچھ نہیں پتا وہ کیا کررہے ہیں۔