بھارت میں اقلیتوں سے نازیبا سلوک عام ہے۔ مسلمانوں سمیت تمام ہی اقلیتوں کو کسی نہ کسی بہانے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مسلمانوں سے خصوصی اظہارِ نفرت کیا جاتا ہے۔ اتر پردیش، ہماچل پردیش، ہریانہ، مہاراشٹر، گجرات اور راجستھان میں مسلمانوں سے اظہارِ نفرت زیادہ قوی رجحان ہے۔
برطانوی اخبار دی گارجین نے ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اتر پردیش میں ایک خصوصی قانون لایا گیا ہے جس کے تحت ہر ریسٹورنٹ کے مالک کے لیے لازم ہے کہ اپنے تمام ملازمین کے نام نمایاں مقام پر آویزاں کرے تاکہ کھانے کے لیے آنے والوں کو معلوم ہو کہ کھانا بنایا کس نے ہے اور پیش کون کر رہا ہے۔
اس قانون کی شدید مذمت کرتے ہوئے مسلمانوں نے کہا ہے کہ اُنہیں نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ اسی قانون کے نافذ ہوتے ہی ہوٹلوں اور ریسٹورینٹس سے مسلم ملازمین کی چھانٹی شروع ہوگئی ہے۔ بنیادی حقوق کے علم برداروں نے بھی اس قانون کا انتہائی متنازع اور زہریلا قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے معاشرے میں تفریق بڑھے گی۔
اب بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں بھی یہ قانون نافذ کردیا گیا ہے۔ وہاں کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ناموں کی نشاندہی سے ایک طرف تو ملازمتیں خطرے میں پڑتی ہیں اور اگر ملازمت خطرے میں نہ بھی ہو انتہا پسند ہندوؤں کے حملوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
دی گارجین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت کی بیشتر ریاستوں میں مسلمانوں سمیت تمام مذہبی اقلیتوں سے انتہائی نوعیت کا امتیازی سلوک عام ہوتا جارہا ہے۔ خود ہندوؤں کو بھی اپنے ہم مذہبوں کے امتیازی سلوک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ دَلتوں کا بھی جینا حرام کیا جارہا ہے۔