ٹھیکیداری نظام اور نجکاری کے خلاف ملک گیر احتجاج

119

انڈسٹری آل گلوبل یونین کی پاکستان میں منسلک فیڈریشنز کی جانب سے 7 اکتوبر کو ملک کے مختلف شہروں میں نسلی بنیادوں پر مزدوروں کے قتل، پبلک اداروں کی نجکاری، مزدور دشمن لیبر کوڈ اور کارگاہوں میں بڑھتے ہوئے حادثات کے خلاف احتجاجی مظاہرے منظم کیے۔
کراچی میں بھی ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن پاکستان( ایچ بی ڈبلیو ڈبلیو ایف) ، پاکستان کیمیکل، انرجی اینڈ مائنز فیڈریشن (پی سی ای ایم ) اور نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن (این ٹی یو ایف) کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں مختلف فیکٹریوں کارخانوں کے مزدوروں کے علاوہ گھر مزدور عورتوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔
مزدور رہنماؤں نے اپنے خطاب میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مزدور دشمن طرز عمل کی کڑی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مزدور طبقہ کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے متحد و منظم ہونا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت اجرتوں کے نوٹیفکیشن کے اجراء میں بلا جواز تاخیر کر رہی ہے جو کہ اس کی مزدور دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مزدور رہنماؤں نے بلوچستان میں مزدوروں کی نسلی بنیادوں پر قتل کے بہیمانہ واقعات کو انسانیت سوز فعل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بزدلانہ اور سفاکانہ جرم کا ارتکاب کرنے والے کسی صورت بلوچوں کے دوست نہیں ہو سکتے ان کا یہ عمل محنت کشوں کی یک جہتی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

مزدوررہنماؤں نے پنجاب اور سندھ میں آئی ایل او کی معاونت سے تیار کر لیبرکوڈز کے ڈرافٹ کو مزدور دشمن اور بین الاقوامی لیبر کنونشن سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کیا اور کہا کہ اس کوڈ میں غیر قانونی ٹھیکیداری نظام کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی سازش کی گئی ہے جس میں آئی ایل او کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو آئی ایل او اس ڈرافٹ سے برأت کا اعلان کرے۔ مزدوروں رہنماؤں نے حکومت سندھ خصوصاً لیبر ڈیپارٹمنٹ کے چند اہلکاروں کو اس مزدور دشمن ڈرافٹ کو خفیہ طریقے سے قانونی جواز فراہم کرنے کی کڑی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ لیبر کوڈ مزدوروں کو حاصل شدہ آئینی اور قانون حقوق کے قتل کا پروانہ ہے جسے سندھ کے محنت کش کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
مزدوروں رہنماؤں نے آئی ایم ایف اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ایما پر پبلک اداروں کی نج کاری کے عمل کو عوام دشمن قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ پچھلی چار دھائیوں میں بیچے جانے والے اداروں کی اکثریت بند ہو چکی ہے۔ نجکاری کے نتیجے میں بے روزگاری اور غربت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی نجکاری کی پالیسی پر عمل درآمد کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ مزدور رہنماؤں نے کہا کہ کارگاہوں اور کانوں میں کام کے غیر محفوظ حالات کی وجہ سے حادثات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور حکومتیں اس خطرناک صورت حال کے تدارک کے لیے کوئی بھی سنجیدہ قدم اٹھانے سے لیت ولعل سے کام لے رہی ہے۔

مزدور رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ
۱۔ حکومت سندھ اجرتوں کا سرکاری نوٹیفکیشن فی الفور جاری کرے۔
2۔ سندھ اور پنجاب لیبر کوڈ واپس لیا جائے اور آئی ایل او مزدور دشمن اقدامات کو قانونی شکل دینے کے عمل سے خود کو دور رکھے ورنہ اس کے خلاف چاروں صوبوں اور وفاقی سطح احتجاج کیا جائے گا۔
3۔ ٹھیکیداری نظام ختم کیا جائے اور مزدوروں کو تحریری تقرر نامہ دیا جائے۔
4۔ کارگاہوں میں لیبر قوانین پر عمل درآمد کا یقینی بنایا جائے۔
5۔ پبلک اداروں کی نجکاری کا عمل روکا جائے اور ان اداروں کو درپیش مسائل مزدور نمائندوں کی مشاورت سے حل کیے جائیں۔
6۔ فیکٹریوں کارخانوں مائینز اور کام کی جگہوں کو مزدوروں کے لیے محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
احتجاجی مظاہرہ سے خطاب کرنے والوں میں عثمان بلوچ، رفیق بلوچ ، عمران علی، زہرا خان ، ریاض عباسی ، محمد سلیم ، راجہ منیر احمد، میاں عبد الرحمان، راحب علی سمیجو، محمد سیلم، عرفان علی منصور، سائرہ فیروز، عاقب حسین، توشیر خان، اقبال ابڑو، ہمت علی پھلپوٹو، مرتضیٰ تنولی و دیگر شامل تھے۔