کئی سال پہلے جب ہم نے اسلام آباد کے ایک مضافاتی علاقے میں اپنا مکان بنایا تو اس کے چھوٹے سے پائیں صحن میں ایک درخت لگانے کا خیال آیا۔ ان دنوں مکان ایسے بن رہے ہیں کہ ان میں صحن کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ پورے رقبہ زمین پر چھت ڈال کر ایک بڑا سا ڈبہ بنادیا جاتا ہے اور اس ڈبے میں زندگی کی تمام سہولتیں اور آسائشیں فراہم کردی جاتی ہیں۔ ہمارا مکان بھی تھا تو ڈبہ ہی لیکن اس کے پچھواڑے کچی زمین کا چھوٹا سا صحن بھی تھا جہاں کھڑے ہو کر آسمان پر نظر ڈالی جاسکتی تھی۔ ایسے میں یہاں ایک درخت لگانے کا خیال دل میں کلبلانے لگا۔ یوں تو اب گھروں میں گملے رکھنے کا رواج ہے، جن میں خوش رنگ پودے ہر موسم میں بہار کا سماں باندھے رکھتے ہیں لیکن گملے میں پلنے اور بڑھنے والا پودا زیادہ مضبوط اور پْراعتماد نہیں ہوتا۔ اسے بے شک پانی اور کھاد باقاعدگی سے ملتی رہے لیکن وہ کبھی درخت نہیں بن سکتا، اس لیے کہ اس کی جڑیں زمین میں نہیں ہوتیں، جبکہ درخت براہِ راست زمین سے اپنا رابطہ استوار رکھتا ہے۔ وہ زمین میں اپنے قدم جما کر بڑے فخر سے آسمان پر نگاہ ڈالتا ہے۔ سورج چمکتا ہے تو اس کے پتے جھلملانے لگتے ہیں۔ ہوا چلتی ہے تو اس کی ٹہنیاں وجد میں آجاتی ہیں، بارش ہوتی ہے تو اس پرکیف طاری ہوجاتا ہے۔ وہ ہر موسم کے مزے لیتا ہے اور انسانوں کو اپنی گھنی چھائوں اور پھلوں سے نوازتا ہے۔ لیجیے صاحب قلم نے درخت کا قصیدہ لکھ ڈالا لیکن ہم آپ کو ابھی تک یہ نہیں بتا پائے کہ ہم نے اپنے کچے صحن میں کون سا درخت لگایا تھا۔ تو لیجیے اس راز سے پردہ اْٹھاتے ہیں۔ آپ سے کیا پردہ آم ہماری کمزوری ہے، ہم اپنے صحن میں آم کا درخت لگانا چاہتے تھے لیکن اہلیہ نے کہا کہ یہ غلطی ہرگز نہ کیجیے۔ اوّل تو آم کے پودے کو درخت بننے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، پھر جب یہ پھل دینے کے قابل ہوگا تو محلے کے سارے بچے اس کے دشمن بن جائیں گے اور ہمارا جینا دوبھر کردیں گے۔ ہم نے اہلیہ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے جامن کا درخت لگانے کی تجویز دی لیکن وہ اس پر متفق نہ ہوسکیں۔ کئی اور پھلدار درخت زیر بحث آئے ان پر بھی وہ نفی میں گردن ہلاتی رہیں، بالآخر امرود کے درخت پر راضی ہوگئیں۔
چنانچہ ہم نے امرود کا پودا نرسری سے خریدا اور کچے صحن کے مشرقی کونے میں لگادیا۔ پھلدار درختوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک نسل انہیں لگاتی ہے اور دوسری نسل ان کے پھل کھاتی ہے۔ لیکن امرود کے درخت پر یہ کہاوت صادق نہیں آتی۔ یہ اپنے لگانے والوں کو زیادہ انتظار نہیں کراتا اور ’’اِس ہاتھ دے اْس ہاتھ لے‘‘ کے مصداق جلد اپنا حساب برابر کردیتا ہے۔ امرود کا پودا زمین میں جڑ پکڑتے ہی تیزی سے بڑھنے لگتا ہے۔ صرف ایک سال میں درخت اور دوسرے سال میں پھلدار درخت بن جاتا ہے۔ ہم نے بھی جو پودا لگایا تھا اس میں بھی دوسرے سال آتے ہی امرود کے شگوفے کھل اْٹھے اور سفید سفید پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو نے صحن کو معطر کردیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ امرود کے پھولوں کی خوشبو نہیں ہوتی لیکن یقین جانیے ہمارے درخت میں جب پھول کھلے تو ان کی خوشبو دور دور تک پھیل گئی۔ ہمارے پڑوس کے بچوں کو تو یہ خبر تھی ہی کہ ہمارے ہاں ایک امرود کا ایک درخت ہے جو عنقریب پھل دینے والا ہے، ہمارے گھر سے پانچ سو گز کے فاصلے پر واقع پرائمری اسکول کے بچوں تک میں امرود کے پھولوں کی خوشبو پہنچ گئی تھی اور وہ اسکول آتے جاتے مکان کی منڈیر پر چڑھ کر یہ اطمینان کرلیتے تھے کہ ان پھولوں کو پھل بننے میں کتنے دن لگیں گے اور تو اور پرندوں کو بھی یہ خبر پہنچ گئی تھی اور وہ جھنڈ کے جھنڈ درخت پر اْترنے لگے تھے، ان میں توتا، مینا، فاختہ، ہْد ہْد اور دیگر پرندے شامل تھے۔ صبح دم چہچہانے والی چڑیوں نے بھی اس درخت پر بسیرا کرلیا تھا۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کسی خاندان میں بہو پہلی بار اْمید سے ہوتی ہے تو وہ پورے خاندان میں ایک وی آئی پی کی حیثیت اختیار کرجاتی ہے، شوہر تو اس کے ناز اْٹھاتا ہی ہے، ساس بھی خلافِ معمول اس کی بلائیں لینے لگتی ہے۔ نندیں بھی اسے گھور
نے کے بجائے اس کی خدمت پر کمربستہ ہوجاتی ہیں۔ کچھ یہی معاملہ امرود کے درخت کا تھا اس میں پہلی بار پھول آئے تھے جو آہستہ آہستہ پھل کی شکل اختیار کررہے تھے اور اسے دیکھ کر سب نہال ہورہے تھے۔ بچے تو اس پر خاص نظر رکھے ہوئے تھے وہ دن میں کئی بار منڈیر پر چڑھ کر جھانکتے اور پتھر مار کر چلے جاتے۔ اہلیہ نے بچوں کو روکنے کے لیے کچے صحن میں ہی اپنا ڈیرا جمالیا تھا۔ پڑوس سے کوئی ملنے والی آتی تو اسے بھی صحن میں ہی بٹھایا جاتا اور گفتگو ایک دوسرے کی غیبت سے نکل کر امرود کے درخت پر آٹکتی۔
’بہن نظر نہ لگے پیڑ امرودوں سے بھرگیا ہے‘‘
’’جمیلہ کچھ نہ پوچھو اس کے لیے میں نے کتنی محنت کی ہے بچوں کی طرح پالا ہے اس پیڑ کو‘‘
’’اسی لیے تو یہ ڈھیر سارے امرود بھی تمہاری جھولی میں ڈال رہا ہے‘‘۔
’’ہاں بس دو چار دن کی بات ہے‘‘۔
لیکن یہ دو چار دن بھی قیامت سے کم نہ تھے۔ رات میں ذرا سی آہٹ ہوتی، کوئی پتا کھڑکتا تو ہم چونک کر اْٹھ بیٹھتے کہ کہیں کسی نے شب خون تو نہیں مار دیا۔ جس دن ہم نے پکے پکے امرود درخت سے اْتارے اْس دن گھر میں جشن کا سماں تھا۔ اڑوس پڑوس سے بھی مبارکباد کا تانتا بندھا ہوا تھا اس مبارکباد میں یہ ’’من طلب‘‘ بھی شامل تھا کہ ان امرودوں پر ہمارا بھی حق ہے! چنانچہ امرود توڑنے کے بعد سب سے پہلے اڑوس پڑوس میں تقسیم کیے گئے جو باقی بچے ان سے گھر میں جشن منایا گیا، لیکن ابھی آدھی فصل درخت سے اْتری تھی، آدھی پکنے کے انتظار میں درخت پر موجود تھی کہ اچانک لاہور سے کچھ مہمان آگئے۔ ان کی خواہش پر سب لوگ فیصل مسجد دیکھنے نکلے تو امرود کا درخت صحن میں تنہا رہ گیا۔ شام ڈھلے واپس آئے تو بیچارے درخت پر قیامت گزر چکی تھی۔ محلے کے بچوں نے اس پر حملہ کرکے اسے تاراج کر ڈالا تھا۔ کوئی کچا یا پکا امرود ان کی دسترس سے نہیں بچا تھا۔ کئی شاخیں بھی ٹوٹی پڑی تھیں، یہ قیامت کا منظر دیکھ کر گھر والی کی تو چیخیں نکل گئیں اور ماحول پر اداسی چھا گئی۔ مہمان بھی اس صورت حال سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
پہلے خیال آیا کہ اس ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف تھانے میں رپٹ درج کرائی جائے اور بچوں کو تھانے میں بلا کر ان کی چھترول کرائی جائے لیکن پھر سوچا کہ بچپن میں ہم بھی تو ایسے ہی تھے۔ گرمیوں کی تپتی دوپہر انصاری صاحب کی کوٹھی کے پائیں باغ پر اپنے ٹولے کے ہمراہ دھاوا بول دیتے جہاں آم اور جامن کے درخت تھے۔ چوکیدار کے ہانکا لگانے سے بھی ہم باز نہیں آتے تھے۔ ایک دن اس کم بخت نے سب بچوں کو گھیر گھار کر مرغا بنادیا۔ نجانے کتنی دیر تک ہم مرغا بنے رہے پھر اچانک انصاری صاحب اِدھر آنکلے انہوں نے چوکیدار سے پوچھا ’’تم نے بچوں کا یہ کیا حال بنا رکھا ہے‘‘ اس نے کہا کہ ’’یہ بچے پھلوں کو ضائع کرتے ہیں‘‘۔ انصاری صاحب مسکرائے ’’پھر انہیں بچے کون کہے گا‘‘۔ تم نے انہیں سزا دی ہے تو اس کا جرمانہ یہ ہے کہ ان کی جھولی پھلوں سے بھرو۔ ہم سوچتے ہیں کہ آج کل کے بچے کچھ زیادہ پریکٹیکل ہوگئے ہیں۔