عوام کے معاشی قتل کے معاہدے پر دستخط

227

قرضوں پر ملک چلانے والوں کے لیے آئی ایم ایف سے بڑے قرضے کی منظوری بڑی خبر ہے اورعوام کے لیے بری، اسی طرح عوام کے لیے ایک اور بری خبر ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط قبول کرلی ہیں اور اس کی شرائط پر دستخط کر دیے ہیں، معاہدے کے تحت پاکستان نے جون 2025 تک خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) کی مراعات کو مرحلہ وار ختم کرنے کا منصوبہ تیار کرنے کی ذمے داری قبول کی ہے، تمام SEZs کی مراعات کو 2035 تک مرحلہ وار ختم کیا جائے گا۔ان سب اقدامات کا براہِ راست اثر عوام پر پڑے گا اور عوام کی مجموعی آمدنی میں کسی اضافے کے کسی منصوبے کا ذکر نہیں ہے، سبسڈی ختم کرنے اور گیس و بجلی مہنگی کرنے کے اقدامات تو فوری طور پر کیے جائیں گے لیکن خصوصی مراعات ختم کرنے کا کام 2035 تک کرنے کا وعدہ ہے ، اسی طرح زرعی ادویات پر ڈیوٹی میں اضافے کا اثر بھی غیر مراعات یافتہ کاشتکار پر پڑے گا ،گیس کے نرخوں بڑھانے کا توپہلے ہی اعلان ہوچکا ہے اب دستخط بھی کردیے گئے ہیں۔ ایک اچھا نام دیاگیا ہے کہ7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) کے تحت 22 شرائط کی منظوری کے ساتھ ہی پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ تحریری معاہدے کئے ہیں۔ اسے صاف اور سیدھی طرح قرضوں کا معاہدہ نہیں کہا جارہا ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلٹی کہنے سے مطلب بدل تو نہیں جائے گا۔سب سے زیادہ مشکل کام یہ ہوگا کہ حکومت مالی سال 2025 کے لیے نیٹ صفر گردشی قرضے کے بہائو کو حاصل کرنے کے لیے ٹیرف میں بروقت اضافے، ہدفی سبسڈی اور بجلی کے شعبے میں اخراجات کو کم کرنے والی اصلاحات کے امتزاج کے ذریعے کوشش کرے گی اور پاکستان کے حکمراں طبقے سے ایسی کسی جاں گسل محنت کی توقع نہیں کی جاسکتی جو مراعات اور سہولیات کا عادی ہو، گردشی قرضے کو صفر تک لانا ان کے بس کی بات نہیں وہ جو کرسکتے ہیں وہ صرف ٹیرف میں تبدیلی ہے اور یہ تبدیلی کمی کی طرف تو ہو نہیں سکتی اضافے ہی کی طرف ہو گی۔ اگلے بجٹ میں کھاد اور کیڑے مار ادویات پرڈیوٹی عائد کی جائے گی اور خصوصی مراعاتی شعبوں سے سبسڈی ختم کرنے کا منصوبہ گیارہ سال بعد کا ہے، کون سا حکمراں ضمانت دے گا کہ گیارہ سال بعد جو حکومت ہوگی وہ اس پر عمل کرے گی۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک اور ناممکن بات یہ ہے کہ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اینٹی کرپشن فریم ورک کو موثر بنانے کے لیے 2025 تک سول سروس ایکٹ میں ترمیم کرے گی تاکہ اعلیٰ سطح کے عوامی عہدیداروں کے اثاثوں کی ڈیجیٹل فائلنگ اور عوامی رسائی کو یقینی بنایا جا سکے (ذاتی معلومات کی حفاظت کے ساتھ) اور ایف بی آر کے ذریعے اثاثوں کی جانچ کے لیے ایک مستحکم فریم ورک تیار کیا جائے گا۔ اس بارے میں بس اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ایں خیال است محال است کہ جنوں، پوری طرح کرپشن میں ڈوبی اشرافیہ، حکمران طبقہ اور مراعات یافتہ لوگ کرپشن کے خاتمے کے اقدامات خود ہی کریں گے، ایسا معاہدہ اور اس شرط پر دستخط کرتے وقت آئی ایم ایف اور پاکستانی وفود کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تو ضرور آئی ہوگی کہ لو ہم ہی سے کہہ رہے ہیں کہ کرپشن ختم کرو اور آئی ایم ایف والے اس لیے مسکرائے ہوں گے کہ دیکھتے ہیں اب کیا چور دروازہ کھلے گا، اسی طرح حکومت نے آئی ایم ایف کی اس شرط کو قبول کیا ہے کہ وہ دسمبر 2024 تک گیس ٹیرف میں تبدیلیوں کی منظوری دے گی، یہ اس کے لیے بڑا آسان ہے۔ یہ تو فوری ہوگا لیکن خصوصی مراعاتی شعبوں کے لیے حکومت جون 2025 تک صرف منصوبہ تیار کرے گی اور مراعات کو ختم کرنے کا ٹائم فریم 2035 ہے، اس کے لیے بھی ایک تخمینے پر مبنی عمل درآمد ہوگا۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ تخمینہ کون بنائے گا اور عمل کون کرے گا، پاکستان کا بہت برا مسئلہ قرض ادائیگی کی صلاحیت کا سال بہ سال کم ہونا ہے اور اس سے قبل آئی ایم ایف کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی قرض ادائیگی کی صلاحیت کو نمایاں خطرات لاحق ہیں اوریہ پالیسیوں کے موثر نفاذ اور بروقت بیرونی مالیاتی تعاون پر منحصر ہے۔ یعنی توازن ادائیگی خراب بھی ہے اور انحصار بیرونی مالیاتی امداد پر ہے۔ ایسے میں کسی بہتری کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی شرح نمو مالی سال 2024-2025 سے 2029-2028 کے درمیان3.2 سے 4.5 فیصد رہنے کا اندازہ ہے اور اس دوران مہنگائی ساڑھے 9 سے ساڑھے 6 فیصد تک رہنے کا امکان ظاہر کیاگیاتھا۔ آئی ایم ایف نے کہا تھاکہ پاکستان کو حکومتی ملکیتی اداروں میں اصلاحات کو تیز کرنا ہوگا، ٹیکس آمدن بڑھانا ہوگی اور اخراجات میں کمی کرنا ہوگی۔ حکومت بااثر کاروباروں کو سبسڈی یا ٹیکس سہولیات فراہم کرتی ہے جس سے مسابقت متاثر ہوئی اور پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور حکومت نے ان میں سے کوئی کام کمال درجے پر یا مکمل طور پر نہیں کیا ہے ساڑھے خام کاغذی اور نمائشی ہیں سوائے نئے نئے ٹیکس تھوپنے کے، اس کے باوجود مراعات یافتہ طبقہ مزے کررہا ہے یہ صورتحال نہایت خوفناک ہے اور عوم کو اشتعال دلانے والی ہے ،اگر سنجیدگی اختیار نہ کی گئی تو ملک کے حالات خراب ہوسکتے ہیں۔مزید یہ کہ ان سطور کے اشاعت کے لیے جانے تک پیٹرول کی قیمتوں میں تین مرتبہ جتنا کمی کی گئی تھی اتنا ہی ایک ہی ہلے میں اضافہ کر دیا گیا ہے ۔