غزہ اسرائیل جنگ میں بھارت کی صہیونیت نواز پالیسی

180

ایک سال قبل شروع ہونے والی غزہ جنگ کے شعلے جہاں مشرق وسطی کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں وہیں جنوبی ایشیا کی 2بڑے ملک بھارت اور پاکستان بھی اس کے اثرات سے کئی حوالوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ بھارت اور پاکستان ان ممالک میں سے ہیں جو اسرائیل اور فلسطینی تنازع میں فلسطینیوں کے حقوق کے شروع ہی سے علم بردار رہے ہیں اور دونوں نے اس معاملے پر حمایت کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ سمجھا ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق حماس کے 7اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد اسرائیلی بمباری کے ردعمل سے پیدا ہونے والی انسانی بحران اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے پیش نظر نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کی اعلی قیادت نے کوئی مضبوط سفارتی حکمت عملی نہیں اپنائی۔ سیاسی امور کے ماہر بھارتی نژاد امریکی پروفیسر ڈاکٹر مقتدر خان کے مطابق بھارت روایت سے ہٹ کر اس جنگ پر اپنی پالیسی میں تبدیلی لایا ہے جو اس کے لیے ملے جلے نتائج لائی ہے۔ یونیورسٹی آف ڈیلاویئر سے منسلک پروفیسر کا کہنا تھا کہ بھارت دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جن کے اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں سے تعلقات رہے ہیں کیونکہ زیادہ تر دنیا اس معاملے پر کسی ایک فریق کے حق میں موقف رکھتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت کے لیے یہ موقع تھا کہ اسرائیل اور عرب دنیا کے ساتھ کوئی بڑی سفارتی کوشش کرتا اور عالمی اسٹیج پر واضح کرتا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا اہل ہے۔ لیکن یہ بات مایوس کن ہے کہ بھارت نے اپنے روایتی اثر و رسوخ کو ترک کر کے اس تنازع کے حل کے لیے کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیرخارجہ ایس جے شنکر کو بین الاقوامی سطح پر اپنی ملاقاتوں میں اس دیرینہ مسئلے کے حل پر زور دینے کے علاوہ کوئی سفارتی اقدام کرنا چاہیے تھا۔ اس سلسلے میں اسرائیلی رہنماؤں سے ملنے کے علاوہ بھارتی حکام حماس کے رہنماؤں سے قطر میں مل سکتے تھے اور جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے کوشش کر سکتے تھے۔ لیکن نئی دہلی نے یہ موقع ضائع کردیا۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرارداد پر غیر جانب دار موقف اختیار کیا جس میں اسرائیل سے مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس سے یہ پیغام کھل کر دیا گیا کہ بھارت مکمل طور پر اسرائیل کے ساتھ ہے۔ واضح رہے کہ جنرل اسمبلی کے گزشتہ ماہ کے ووٹ کے بعد وزیر اعظم مودی نے مشرق وسطی کے تنازع کے دو ریاستی حل پر زور دیا تھا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی نے غزہ میں جانی اور مالی نقصان کے باوجود جنگ بندی پر کوئی سفارتی دباؤ نہیں ڈالا ،جب کہ اس نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے معاملے پر سفارتی کوشش کی ہے۔ بھارت نے اپنی پالیسی کے ذریعے اپنے مفادات کو آگے بڑھایا ہے۔ نئی دہلی نے اسرائیل کے حق میں پالیسی سے کئی فوائد حاصل کیے ہیں جن میں تل ابیب سے ملٹری انٹیلی جنس اور زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا حصول شامل ہیں۔ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھارت نے امریکا میں پرو اسرائیل لابی کی حمایت بھی حاصل کرلی ہے۔

غزہ جنگ میں پاکستان کا غیر مؤثر کردار
دوسری جانب پاکستان اسلامی دنیا کا اہم ملک اور فلسطینی حقوق کا بڑا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کے معاملے پر اسلام آباد کی سفارتی اور سیاسی کوششیں غیر مؤثر رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق اقوام متحدہ کے مختلف فورمز پر تو پاکستان نے کھل کر فلسطینی حقوق کی بات کی ہے لیکن سیاسی سطح پر اسلام آباد نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جسے جنگ بندی اور امن کی جانب ایک کوشش سمجھا جا سکے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی قیادت کے غیر مؤثر ہونے کی وجہ ملک کا اندرونی عدم استحکام ہے۔ پاکستان اس وقت کئی مسائل میں الجھا ہوا ہے جس میں سیاسی عدم استحکام اور ایک کمزور معیشت سر فہرست ہیں۔ پاکستان کااپنی معیشت کی بدحالی کے باعث دوسرے ممالک پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے۔ گمبھیر اندرونی مسائل کی وجہ سے کمزور ہوتا پاکستان عالمی سطح پر بڑی حد تک تنہائی کا شکار رہا ہے اور اس کا سیاسی اثر ورسوخ بہت کم ہو گیا ہے حالاںکہ اس کے مشرق وسطی سے بڑے مفادات وابستہ ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی جنگ سے بھارت اور پاکستان کتنے متاثر ہوں گے ؟
خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق اگر جنگ غزہ، لبنان اور یمن کے بعد تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال اور سمندری تجارتی راستوں کے اسٹریٹجگ محل وقوع رکھنے والے ایران تک پھیلتی ہے تو اس کے معاشی اور اقتصادی تعلقات سے دنیا کے کچھ ہی ممالک محفوظ رہ سکیں گے۔ اقتصادی شعبے میں دیکھا جائے تو بھارت نے گزشتہ کچھ سالوں میں اپنی معیشت کو مضبوط کرنے اور اقتصادی ترقی میں تنوع لانے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت تیل در آمد کرنے کے لیے صرف عرب ممالک یا ایران پر انحصار نہیں کرتا بلکہ وہ روس سے بھی تیل خریدتا ہے۔ حتی کہ بھارت خام تیل خرید کر اور اسے اپنی آئل ریفائنریوں میں صاف کرکے خلیجی اور یورپی ملکوں کے علاوہ امریکا کو بھی برآمد کرتا ہے۔ تاہم ایران پر حملے کی صورت میں بھارتی معیشت کو شدید نقصان کا خطرہ ہے کیو ں کہ لاکھوں بھارتی شہری خلیجی ملکوں میں تارکین وطن کی حیثیت سے روزگار کے مواقع سے مستفید ہوتے ہیں اور بہت سے بھارتی مشرق وسطی میں کاروبار بھی کرتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خلیجی جنگ کی صورت میں بھارتی تارکین وطن کی واپسی معیشت کے لیے خطرناک ہوگی۔
پاکستان اور ایران کی تقریباً 950 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور ہمسایہ ملک ہونے کے ناتے ایران اسرائیل جنگ کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسرائیل اور ایران کے براہ راست تصادم کے پا کستان پر بہت منفی جیو پولیٹکل اور جیو اکنامک اثرات ہوں گے۔ ترسیلات میں کمی پاکستانی اقتصادی ترقی اور اس کی معیشت کے لیے بڑا جھٹکا ہوگی جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔ دنیا بھر میں ایک کروڑ 20لاکھ سے زیادہ پاکستانی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب، عرب امارات، بحرین، قطر اور عمان میں روزگار سے وابستہ ہے۔ یہ تارکین پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت کے لیے اربوں ڈالر کی ترسیلات کے ذریعے اہم سہارا بنتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ایسی جنگ کی صورت میں تیل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے کیوں کہ ایران کے پاس واقع آبنائے ہرمز تیل کی عالمی تجارت کا ایک کلیدی راستہ ہے اور پاکستان توانائی کے مسائل میں پہلے ہی گھرا ہوا ہے۔ لہٰذا تیل کی قیمت میں اضافہ پاکستانی معیشت کے لیے بہت نقصان دہ ہوگا۔ پہلے ہی خطے میں جنگی شاخسانے کی صورت میں تجارتی بحری جہازوں پر حملوں کی وجہ سے اشیا کی ترسیل پر انشورنس کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے اور پاکستان کو برآمدات پر زیادہ پیسہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ مزید یہ کہ خطے میں عدم تحفظ پاکستان کے سی پیک جیسے بڑے منصوبوں پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو ایرانی مہاجرین کے سرحد کے پارآنے سے عسکریت پسندی اور فرقہ وارانہ سوچ کے مختلف پہلووں سے بھی نبردآزماہونا پڑ سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں جنگ ہوئی تو بھارت کا کیا موقف ہوگا؟
بھارت کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر مسلسل تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس نے تمام فریقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سفارت کاری اور مذاکرات سے تنازعات کو حل کریں۔ نئی دہلی میں اس بات پر گفتگو ہو رہی ہے کہ اگر صورتِ حال مزید کشیدہ ہوتی ہے تو تمام فریقوں سے اپنے تعلقات کے پیش نظر بھارت کا کیا موقف ہونا چاہیے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر صورتِ حال اور خراب ہوتی ہے اور ایران اور اسرائیل میں باضابطہ جنگ چھڑ جاتی ہے تو بھارت کو متوازن اور غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ بھارت نے یوکرین روس تنازع میں جو پالیسی اپنائی تھی وہی یہاں بھی اپنائے گا۔ یاد رہے کہ ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا تھا۔ تہران کا کہنا ہے کہ اس نے اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے یہ حملہ کیا ۔بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک پریس بریفنگ میں مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا۔ وزارتِ خارجہ نے صورتِ حال پر تشویش ظاہر کی تھی اور تمام فریقوں سے تحمل کا اظہار کرنے کی اپیل کی تھی۔ بھارتی حکومت نے ایک ٹریول ایڈائزری بھی جاری کی اور اپنے شہریوں کو ایران کے سفر سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ ایڈوائزری تل ابیب میں بھارتی سفارت خانے کے اس بیان کے بعد جاری کی گئی جس میں اس نے اسرائیل میں رہنے والے بھارتی شہریوں کو گھروں میں رہنے کو کہا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر بھارت کی فکرمندی کا اندازہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے بیان سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے امریکا میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت مغربی ایشیا میں ایک ممکنہ جنگ سے بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہے۔ رندھیر جیسوال نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ ایران اور اسرائیل سے جو بھارتی شہری واپس آنا چاہیں وہ آ سکتے ہیں۔ طیارے پرواز کر رہے ہیں اور یہ آپشن کھلا ہوا ہے۔ کچھ لوگوں کے اہل خانہ نے سفارت خانوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیل میں تقریباً 30 ہزار اور ایران میں 5سے 10 ہزار تک بھارتی باشندے ہیں۔ اسرائیل میں بیشتر ملازمین حالیہ عرصے میں گئے ہیں۔ ادھر ایران میں تقریباً 5ہزار بھارتی طلبہ ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو جہاں مقامی شہریوں پر اثر پڑے گا وہاں خطے میں بھارت کے مفادات بھی متاثر ہوں گے۔

ایران کا حملہ اعلان جنگ نہیں ‘عوام کو مطمئن کرنے کے لیے تھا‘ تجزیہ کار
اس وقت مغربی ایشیا کی صورتِ حال انتہائی غیر یقینی ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آگے کیا ہو گا۔ بھارت کی تشویش کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اسرائیل اور ایران دونوں سے تعلقات ہیں۔ وہ نہیں چاہے گا کہ صورت حال مزید کشیدہ ہو۔ اسی لیے وہ بار بار صورت حال کو معمول پر لانے کی بات کر رہا ہے۔سابق بھارتی سفارت کار راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ صورتِ حال مزید کشیدہ نہیں ہونی چاہیے اور شاید ہو گی بھی نہیں اور اگر ہو جائے تو اس کا دائرہ بہت محدود ہونا چاہیے۔ بڑی طاقتیں اپنی طرف سے کوشش کر رہی ہیں کہ صورتِ حال خراب نہ ہو۔ بھارت کی جانب سے بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ امن قائم ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر صورتِ حال مزید کشیدہ ہوتی ہے تو سب کے لیے تشویش کا سبب ہو گا۔ اس سے سپلائی چین اور درآمدات برآمدات سب پر اثر پڑے گا۔ خطے میں بھارت کے مفادات بھی متاثر ہوں گے۔ تجزیہ کار نیلوفر سہروردی نے امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان کا حوالہ دیا کہ ایرانی حملے کے جواب میں اسرائیلی کارروائی تناسب کے اعتبار سے ہونی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حزب اللہ رہنما کی ہلاکت کے بعد ایران میں شدید ردِعمل ظاہر کیا جا رہا تھا۔ اس لیے ایران نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا۔ اسے جنگ نہیں سمجھا جاسکتا البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کارروائی اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے تھی۔لیکن اگر جنگ ہوتی ہے تو بھارت کا کیا موقف ہو گا ،اس بارے میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرے گا۔ بھارت نے یوکرین اور روس کے تنازع میں جو موقف اختیار کیا تھا وہی یہاں بھی اختیار کرے گا۔

کیا بھارت غزہ جنگ بندی میں ثالثی کرسکتا ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو سے سے بات کی تھی۔ 23 ستمبر کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر نیو یارک میں محمود عباس سے ان کی ملاقات ہوئی تھی، جب کہ گزشتہ سال اکتوبر میں ان سے فون پر بات کی تھی۔ مودی نے 30 ستمبر کو نیتن یاہو سے دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے جانے والے شہریوں کی رہائی پر زور دیا۔ کیا مودی کے ان اقدامات کو بھارت کی جانب سے ثالثی کی کوشش تصور کرنا چاہیے؟ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسے ثالثی تو نہیں کہہ سکتے۔ لیکن یہ اسی جانب ایک قدم ہے۔ ممکن ہے کہ بھارت اس معاملے میں فریقین سے براہ راست بات چیت نہ کرے۔ کیوں کہ جب مودی نے کیف جا کر زیلنسکی سے ملاقات کی تھی تو صدر پیوٹن نے خفگی کا اظہار کیا تھا۔ جب نیتن یاہو صدر بائیڈن کی نہیں سن رہے ہیں تو وہ بھارت کی کیا سنیں گے۔ بھارت کو تیل کی ضرورت کا 80 فی صد حصہ مغربی ایشیا سے فراہم ہوتا ہے۔ اگر جنگ ہوتی ہے تو توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ مزید یہ کہ بڑے عرب ملکوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کی جو خواہش ظاہر کی ہے جنگ کی صورت میں اس پر اثر پڑے گا۔