میں: میں دیکھ رہا ہوں کہ جس موضوع پر تقریباً سب ہی اپنے اپنے انداز میں اظہار ِ خیال اور آوازِ احتجاج بلند کررہے ہیں، تمہارا قلم اس پر خاموش ہے؟
وہ: تم ہی کہوکیا لکھوں۔۔۔ اپنوں کی بے حسی کا نوحہ لکھوں یا غیروں کی بے اعتنائی کا تماشا، عرب اور مسلم حکمرانوں کی شراب وکباب سے بھری محفلوں کا احوال لکھوں یا ان کی بے غیرتی کی نہ ختم ہونے والی داستان کا خلاصہ، امریکا اور اسرائیل کی جناب میں کورنش بجالانے والوں کی نام نہاد مذمتوں کا فسانہ لکھوں یا اپنی ماں کی قبر پر آنسو بہاتے فلسطینی بچے کی تصویر کا خاکہ، مرگ بر اسرائیل لکھوں یا Down With America
میں: اورکچھ نہیں تو کم از کم فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت میں کی گئی اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی روداد ہی لکھ دو۔
وہ: میرے بھائی مجھے اس وقت زیادہ خوشی ہوتی اگر یہ کانفرنس پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے بجائے امت مسلمہ کی تمام مسلح افواج کے سپہ سالاروںکے درمیان ہوتی اور اس میں فلسطینیوں کے ساتھ محض رسمی حمایت کے بجائے اسرائیل اور امریکا کے خلاف کھل کر اعلان جنگ کیا جاتا، ویسے مجھے یاد آیا کچھ سال قبل ایسا کوئی قدم اٹھایا تو گیا تھا ہماری مسلح افواج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو امت مسلہ کی سپہ سالاری بھی سونپی گئی تھی، ہوسکتا ہے وہ کسی اور اہم محاذ پر برسر ِ پیکار ہوں۔ میرا خیال ہے شاید اسی مناسبت سے ایک رہنما نے اس کانفرنس میں یہ بات کہی کہ اسلامی ممالک کی افواج آخر کس دن کے لیے ہیں۔ چلو اسی حوالے سے اس کانفرنس کی کچھ قراردادوں پر بات کیے لیتے ہیں۔ بظاہر تو اس روز قراردی گئی کسی بھی قرارداد کے نتیجے میں مظلوم فلسطینیوں کی بے قراری کو قرار آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا، ہاںشاید ان بیچاروں کو آٹے میں نمک کے برابر کچھ سفارتی اور اس کچھ سے کچھ زیادہ اخلاقی ہمدردی کا سامان میسر آجائے۔
میں: لیکن میرے خیال سے تو کچھ باتیں حوصلہ افزا بھی ہیں، جس میں دو ریاستی حل کے بجائے فلسطین کے لیے ایک آزاد ریاست کے قیام کا اعلامیہ جیسی باتیں شامل ہیں۔
وہ: ہاں باتیں تو بہت ساری ہوئیں، مثلاً اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، ہمیں دو ریاستی حل قبول نہیں، اقوام متحدہ ناکام ہوگئی، اخلاقی وسفارتی حمایت جاری رکھنے کا عزم ایک بار پھر دہرایا گیا، فلسطینیوں کی نسل کشی اور اسرائیل کے مظالم کی مذمت کی گئی، فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ مگر تمام ہی جوشیلی تقریریں اور بیانات اخبارات کی شہ سرخیوں، چند کالم نگاروں کی تحریروں اور سوشل میڈیا کی زینت بن کر ہوا میں تحلیل ہوگئیں۔
میں: تم کیسی باتیں کررہے ہو! یہ کیا کم ہے کہ فلسطین کے بہانے ہی سہی تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتیں ایک ایجنڈے پر متفق نظر آئیں، امت مسلمہ کے لیے ایک آواز، ایک قوت بن کر اپنے اتحاد اور اسرائیل سے اپنی نفرت کا کھل کا اظہار کیا۔
وہ: مگر میرے دوست تم اس نمائشی اتحاد واتفاق اور کانفرنس کے انعقاد پر اتنی خوش فہمی کا شکار کیوں ہو۔ ہم اور کم وبیش تمام امت مسلمہ برسوں سے مظلوم فلسطینیوں کے لیے اس کے علاوہ اورکر بھی کیا رہی ہے۔ گزشتہ اسی نوے سال میں اندازاً لاکھ دولاکھ مظاہرے، ہزاروں اخباری کالمز، عرب لیگ، اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور پچاس ساٹھ ملکوں کی پارلیمنٹس میں مذمت اور ہمدردی کی ملی جلی قرادادیں اور کروڑوں، اربوں روپوں کی مالی امداد۔
میں: تو ہم اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟
وہ: تم نے کبھی دشمن کے محاذ کی خبر لی ہے کہ وہاں کیا کیا منصوبہ بندی اور حکمت عملی کارفرما ہے۔
میں: ان کی کیا حکمت عملی ہونی ہے، ان کی پشت پر امریکا کا ہونا ہی کافی ہے۔
وہ: تم نے بالکل درست کہا، امریکا میں اسرائیل کی حمایت صرف یہودی حلقوں کی جانب سے نہیں بلکہ امریکی ریاست کی برسوں سے جاری غیر متزلزل اور مستقل پالیسی ہے کہ جو اسرائیل کا دشمن ہے وہ امریکا کا دشمن ہے۔ یہودی لابی کا اثر رسوخ امریکی سماج کے ساتھ ساتھ وہاں کے انتخابات اورحکومتوں کی تشکیل میں اس قدر زیادہ ہے کہ وہاں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ نہ رکھنے والے امیدواروں کو کامیاب ہی ہونے نہیں دیا جاتا خواہ وہ ریپبلکنز ہوں یا ڈیموکریٹس اور اسرائیلی حمایت یافتہ امیدواروں کو صرف اخلاقی ہی نہیں بے دریغ مالی امداد بھی فر اہم کی جاتی ہے۔ اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام سے لیکر آج تک ایک بھی غیر یہودی امریکی، اسرائیل میں سفیر تعینات نہیں کیا گیا۔ امریکا کو یہ بات لمحہ بھر کے لیے بھی گوارا نہیں کہ اسرائیل کی معیشت کوکسی نقصان کا سامنا کرنا پڑے، اسرائیلی بانڈز میں سب سے بڑی خریدار امریکا میں انفرادی شخصیات سے زیادہ وہاں کی ریاستیں ہیں جو اپنے سرکاری بجٹ سے یہ بانڈز تواتر کے ساتھ خریدتی ہیں اور صرف گزشتہ ایک سال میںدو بلین سے زائد کے اسرائیلی بانڈز کی خریداری کی گئی ہے جو 1951 سے اب تک پچاس ارب سے زائد ہوچکی ہے اور اس سرمایہ کاری میں پچھتر فی صد سے زائد حصہ صرف امریکا کا ہے۔ اور یہ معاملہ صرف سیاسی یا معاشی تناظر ہی نہیں مذہبی بنیاد پرستی کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ یہودی تو خیر اس خود ساختہ فریب کا شکار ہیں کہ انہیں علٰیحدہ ریاست کا حق خدا کی طرف سے تفویض کیا گیا ہے، جبکہ خدائے بزرگ و برتر انہیں کب کا راندۂ درگاہ کرچکا ہے۔ ساتھ ہی امریکا کے چھے کروڑ بیس لاکھ سے زائد Evangelicals (انجیل میں مذکور بشارت پر ایمان اور اس کی تبلیغ پر مامور عام عیسائی) صرف اس بنیاد پر اسرائیل اور یہودیوں کی حمایت کررہے ہیں کہ یروشلم میں یسوع مسیح کی ہمیشہ قائم رہنے والی سلطنت کا قیام ہوگا۔
میں: لیکن یہ تمام باتیں تم اتنے وثوق کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہو؟
وہ: یہ باتیں میں نہیں کہہ رہا مختلف ویب گاہوں پر تم یہ سب حقائق بذات خود دیکھ سکتے ہو، تمہاری سہولت کے لیے ان میں سے کچھ کے نام بتائے دیتا ہوں۔ کرسچن یونائیٹڈ فار اسرائیل cufi.org, aipacpac.org اور israelbonds.com وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا، برطانیہ اور دیگر کئی یورپی ممالک کی جانب سے اسرائیل کی اسلحے، گولہ بارود اور جنگی سازو سامان سے غیر مشروط حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ امریکا میں ان یہودی لابیز کی جانب سے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کو امریکی حکومت کے ایما پر واضح دھمکیاں دی گئی ہیں کہ اسرائیل کے کسی بھی حکومتی رکن کے خلاف فلسطین میں اسرائیلی کے جنگی جرائم پر کسی قسم کی گرفتاری کا ارادہ کیا یا کوئی وارنٹ جاری کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
میں: اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں اصل مجرم امریکا ہے اور اصل محاذ اسرائیل کے بجائے امریکا میں کھلا ہوا ہے۔
وہ: ہاں، ورنہ اسرائیل جیسے بالشت بھر کے ناجائز ملک کو سبق سکھانا مصر، ایران، ترکی یا پاکستان جیسے ملکوں کے لیے کیا مشکل ہے۔ مگر رونا اس بات کا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے معاملے میں تمام ہی اسلامی ممالک کے حکمران بڑی بڑی کانفرنسوں میں بظاہر امریکا اور اسرائیل کے خلاف بہت گرج برس رہے ہیں لیکن اصل میں تمام حکمران ایک صف میں ہاتھ باندھے کھڑے جنگ بندی کی بھیک کچھ اس انداز سے مانگ رہے ہیں کہ حضوروالا! حماس اور حزب اللہ کے ناسمجھ اور نادان نوجوانوں سے غلطی ہوگئی ہے اگر ’آپ جنگ بندی کردیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی‘۔