کراچی رہنے کے قابل کیوں نہیں رہا

305

تیسری قسط

جہاں تک کچی آبادیوں کا تعلق ہے تو کچی آبادی میں تو لوگ ان کتوں کی نفسیات سے واقف ہوتے ہیں اور کتے بھی اوقات میں رہتے ہیں لیکن کیا کریں کراچی کے بہت سے علاقوں کے لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ عبدالستار افغانی یا نعمت اللہ خان کے کراچی میں ہیں اور یہ اب تک شہر ہے، گزشتہ پندرہ برس میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے بڑی محنت سے اس شہر کو اجاڑا اور پیپلز پارٹی نے تو وہ کمال کیا کہ اپنے منشور پر بھرپور عمل کیا، سندھ کے گائوں دیہات کو کراچی کے برابر کرنے کے دعوے پر اس طرح عمل کیا کہ تمام شہروں اور دیہات پر توجہ دینے کے بجائے کراچی پر پوری توجہ مرکوز کی اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی ان دیہات کے برابر ہوگیا ہے، وہاں بھی بجلی، سڑک، صاف پانی، روشنی، پارکس، تعلیمی ادارے، اسپتال اور ڈاکٹر نہیں ہیں اور کراچی میں یہ سب کچھ تھا اس سے بھی لے کر پورے صوبے کو برابر کردیا ہے۔

سب سے بڑا جرم بلدیاتی نظام کا بیڑا غرق کرکے کیا گیا ہے۔ کئی برس قبل جناب مرتضیٰ وہاب کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا تھا۔ پھر جب انتخابات ہوئے تو کراچی کے عوام سے ان کے نمائندوں کا حق چھین کر پی پی پی کی جھولی میں ڈالا گیا۔ بلدیاتی حلقہ بندیوں سے لے کر کونسلرز کی تعداد، انتخابی دھاندلیوں، جعلی نتائج سمیت ہر دھاندلی کرکے درجنوں یوسیز چھین لی گئیں۔ جماعت اسلامی سے چھے ٹائون چھینے گئے۔ اس پر بس نہیں کیا گیا ہے بلکہ انتخابات کے بعد بلدیاتی قوانین میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ جو اختیارات یوسز اور ٹائون کو تھے وہ بھی ہڑپ کرلیے گئے۔

چونکہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی مدد سے سارے کام ہورہے تھے اور اس کے نگراں وزیر بلدیات سعید غنی صاحب ہیں۔ چنانچہ الیکشن سے قبل یہ دھاندلی کی گئی کہ ایک یوسی جو عموماً پچاس ساٹھ ہزار ووٹرز پر مشتمل ہوتی ہے پیپلز پارٹی نے درجنوں یوسیز دس دس ہزار ووٹوں والی بنالیں جہاں پندرہ سو ووٹ لینے والا بھی جیت رہا تھا۔ اس طرح چیئرمین اور وائس چیئرمین ان کے بڑھنے لگے۔ پھر بھی گنتی پوری نہیں ہورہی تھی تو پی ٹی آئی کے 30 لوگ خریدے اور جو بک نہیں سکے ان کو یا تو آنے نہیں دیا یا خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح میئر شپ پر قبضہ کرلیا گیا۔ طرح طرح کی ترامیم کرکے مخصوص نشستوں پر من پسند لوگوں کو منتخب کرایا گیا۔ ٹائون اور یوسیز کے چیئرمین کے اختیارات اس قدر کم کردیے گئے کہ اب سویپر، نائب قاصد، مالی، چوکیدار وغیرہ کی تنخواہ کی شیٹ پر بھی یوسی یا ٹائون چیئر مین کے بجائے پارٹی کے بھرتی کردہ سیکرٹری کے دستخط ہوتے ہیں۔ جبکہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے تمام یوسی ناظمین کو بااختیار بنایا تھا ان کے دستخط کے بغیر عملے کو تنخواہ جاری نہیں ہوسکتی تھی جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کے بھرتی کردہ عملے کو بھی کام پر آنا اور کام کرنا پڑتا تھا لیکن اب تمام اختیار یوسی سیکرٹری کو دے دیا گیا ہے اور کئی یوسیوں میں تو پارٹی کے لوگ حاضری اور ڈیوٹی لگاتے ہیں جس کی وجہ سے پورے شہر میں خصوصاً پیپلز پارٹی کے مخالفین کی یوسیوں میں کچرا اٹھانے کا کام بند کردیا گیا ہے۔ عملہ ٹائون کے حوالے کیا جارہا ہے جو پارکس یا ٹائون آفس میں ان کو بٹھا کر اپنی مرضی کی ڈیوٹی دے رہا ہے۔

کراچی رہنے کے قابل کیوں نہیں رہا۔ وزیراعلیٰ یہ سوال اپنے میئر مرتضیٰ وہاب سے بھی پوچھ سکتے ہیں کیونکہ مرتضیٰ وہاب میئر ہیں پارٹی کے اہم رہنما ہیں۔ وزیر بلدیات کے پسندیدہ ہیں۔ کچرا صفائی کا کام کرنے والے ادارے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ ان کے ماتحت ہے۔ کراچی میں واٹر بورڈ کے ذمے دار میئر صاحب ہیں ان کے ماتحت سب کچھ ہے۔ پانی نہیں آرہا تو وزیر اعلیٰ سے پوچھیں، سڑکوں گلیوں میں گٹر بہہ رہے ہیں تو ان سے پوچھا جائے کہ شہر رہنے کے قابل کیوں نہیں۔ فائر بریگیڈ ان کے اختیار میں ہے تمام بڑے پارکس میئر کے کنٹرول میں ہیں۔ پھر بھی شہر سے کچرا صاف ہورہا ہے نہ بہتے گٹر ٹھیک ہورہے ہیں۔ تو اہل کراچی کو بتایا جائے کہ کراچی رہنے کے قابل کیوں نہیں رہا اور جتنی رقم وزیراعلیٰ نے مانگی ہے یا بتائی ہے مختلف منصوبوں کے نام پر وہ رقم بلکہ اس سے زیادہ حکومت کو ملتی ہے۔ پھر بھی وزیراعلیٰ فرما رہے ہیں کہ کراچی کو رہنے کے قابل بنانے کے لیے اتنی ساری رقم چاہیے۔ وزیراعلیٰ صاحب کسی کام کے لیے رقم بنیادی چیز نہیں ہے عزم بنیادی چیز ہے۔ عزم کریں رقم فراہم ہوجاتی ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کراچی کو تو جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے۔ سڑکیں، گٹر لائنیں، پانی کی فراہمی، کچرا اٹھانے کا نظام، سڑکوں پر روشنیاں، آوارہ کتے، اندھیری سڑکیں یہ سب کس کی ذمے داری ہے۔ اس سارے نظام کو خراب اور تباہ کرنے میں دو چیزیں سب سے زیادہ ذمے دار قرار دی جاسکتی ہیں۔ ایک پارٹی کی بنیاد پر تقرر اور دوسرے بدعنوانی۔ پارٹی کی بنیاد پر تقرر بھی اہل لوگوں کا نہیں ہوتا بلکہ پیسوں اور تعلقات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ پھر جو لوگ پیسے کھلا کر کلرک سے ڈائریکٹر تک کوئی بھی عہدہ سنبھالتے ہیں وہ پیسہ کھانا شروع کردیتے ہیں۔ پھر بھتے کا نام ٹیکس رکھ دیا جاتا ہے۔ ٹیکس لینے پر مامور عملہ ٹیکس کے بجائے خرچی لیتا ہے اور چلا جاتا ہے، سرکاری آمدنی میں کمی ہورہی ہے اور عملے کی بڑھ رہی ہے۔ تیسری بڑی خرابی یہ ہے کہ کراچی کے میئر اور ان کی پارٹی اپنے مخالفین کو نقصان پہنچانے یا ان کے علاقوں میں کام روکنے کے چکر میں بھی کراچی میں تباہی پھیلا رہے ہیں۔ جب صفائی کا عملہ مخالفین کے علاقوں سے اٹھالیا جائے تو صفائی کیسے رہے گی۔ اس طرح وہ سمجھ رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کے یوسی چیئرمین کے خلاف فضا بنے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے دن رات ایک کرکے اپنے وعدے کو پورا کیا اور کام شروع کردیا۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے شہر میں 18 سے بڑھا کر 25 ٹائون کردیے لیکن بیش تر ٹائونز کے پاس دفاتر نہیں، شہر کی 223 یوسیز کے پاس دفاتر نہیں، سارا اختیار سیکرٹری کو ہے جو پارٹی کے کوٹے پر آتا ہے۔ چنانچہ وہ جہاں چاہے عدالت لگا کر بیٹھ جاتے، اب بیش تر جگہ سیکرٹری منتخب نمائندے سے زیادہ بااختیار ہے۔

پیپلز پارٹی سے پہلے متحدہ کا کنٹرول تھا تو انہوں نے اپنا عملہ بھرتی کر رکھا تھا اب بھی ہر ٹائون کے میڈیا کے شعبے میں متحدہ کے بھرتی کردہ لوگ موجود ہیں یا پی پی کے۔ اب ان کے پاس کام بھی نہیں ہے، جس یوسی میں اختیارات کے بغیر کام ہورہا ہے وہ اس کی خبر بھی جاری نہیں کرتے۔

کراچی کو رہنے کے قابل نہ رہنے دینے کی ذمے داری حکومت سندھ ہے اس نے ہر وہ کام کیا کہ کراچی رہنے کے قابل نہ رہے۔ اس کے لیے اپنا ایڈمنسٹریٹر بٹھایا، پھر انتخابات سے فرار ہوئے، اب یہاں تک کہ عدالت سے حکم آگیا پھر بھی ٹالتے رہے، بالآخر پوری دھاندلی کی بھرپور تیاری کے ساتھ الیکشن کرایا نمبر پھر بھی پورے نہیں ہوئے تو دھونس دھاندلی اور مال خرچ کرکے سرکاری مشینری کی مدد سے اپنا میئر بنا ہی لیا۔ لیکن اب یہ معاملہ بھی الٹا ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی کے منتخب یوسی چیئرمین، کونسلر اور ٹائون کے چیئرمین اختیارات اور وسائل کے بغیر کام کررہے ہیں۔ اس بے سروسامانی کے عالم میں بھی شہر کو مختصر عرصے میں سو سے زائد پارکس کا تحفہ دے دیا ہے اور دیکھتی آنکھوں کے سامنے شہر میں پارک جگمگا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی سے سابق میئر کے دور سے بھی زیادہ اختیارات چھینے گئے ہیں لیکن اس نے اختیارات کا رونا نہیں رویا بلکہ منتخب نمائندوں کے اختیارات کے حصول کی جنگ قانونی طور پر لڑ رہی ہے اور میدان میں اپنی مدد آپ، الخدمت اور مخیر حضرات کے تعاون سے کام میں مصروف ہے۔ ۱۰۰ سے زیادہ ایسے پارک بحال اور تیار کیے گئے ہیں جن میں کوئی تجارتی سرگرمی نہیں ہے۔ پورا پورا پارک عوام کے لیے مفت تفریح کا ذریعہ ہے۔ اس طرح ایک اور بڑا کام کیا گیا ہے اور وہ جاری ہے، شہر کے 31 سرکاری اسکولوں کو جو تباہ کردیے گئے تھے نئے سرے سے بحال کرکے وہاں تعلیم کا سلسلہ بحال کردیا ہے۔ اب ہر روز نئے داخلوں کے لیے لوگ آرہے ہیں اور اچھے نمبروں سے یہاں کے بچے پاس ہورہے ہیں۔ اسی طرح گلبرگ ٹائون کے سرکاری اسکول کے بچے نے 28 برس میں پہلی مرتبہ سرکاری اسکول سے ٹاپ کیا ہے۔ یعنی محض خانہ پری کے لیے اسکول بحال نہیں کیے گئے ہیں وہاں معیاری تعلیم بھی دی جارہی ہے۔ ان گزارشات کو مختصر حوالہ ہی سمجھا جائے ورنہ اگر کراچی کی تباہی کے اسباب تحریر کرنا شروع کردیں تو دفتر کے دفتر بھرے جاسکتے ہیں۔ اور ہر شعبے کی تباہی کے پیچھے وہی لوگ ملیں گے جو آج کل حکمراں ہیں یا پہلے متحدہ کے ساتھ حکمران رہے۔ پھر بھی پوچھتے ہیں کہ کراچی کو رہنے کے قابل کیسے بنایا جائے۔