بلوچستان میں دہشت گردی کا مسئلہ عرصہ دراز سے ایک تکلیف دہ حقیقت ہے جو ملکی سلامتی کے لیے مسلسل خطرے کا باعث بنتا جارہا ہے۔ حالیہ واقعے میں کان کنوں پر دہشت گردوں کا حملہ ایک مرتبہ پھر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ صوبے میں صورتِ حال اب ریاست کے کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ اس واقعے میں 21 مزدور جاں بحق ہوئے، جن میں افغانستان، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے افراد شامل تھے۔ دہشت گرد دو گھنٹے تک آزادانہ کارروائی کرتے رہے، جبکہ فورسز تین گھنٹے بعد پہنچیں۔ اور ایسا نہیں تھا کہ دہشت گرد فوراً فرار ہوگئے، واقعے کے بعد ڈرون کیمرے سے وہ ویڈیو بھی بناتے رہے، یعنی انہیں کسی چیز کا خوف نہیں تھا۔ یہ سب اس بات کی غمازی ہے کہ ریاست کی رٹ کمزور ہوچکی ہے اور سیکورٹی فورسز بروقت ردعمل دینے میں ناکام رہتی ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی قابل ِ مذمت ہے، حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طاقت کے بجائے سیاسی و مذاکراتی حل تلاش کیا جائے۔ ماضی میں طاقت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیں اور بلوچستان کے عوام کا احساسِ محرومی مزید بڑھا ہے۔ سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے صوبے کے وسائل کا استعمال اپنے مفاد میں کیا جارہا ہے جبکہ عوام بنیادی ضروریات جیسے تعلیم اور صحت سے بھی محروم ہیں۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز میجرمنٹس سروے کے مطابق بلوچستان میں تعلیم کی صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے، جہاں 59 فی صد بچے اسکولوں سے محروم ہیں، اور لٹریسی ریٹ 37 فی صد تک گر چکا ہے۔ بلاشبہ استحصال اور حق تلفی پر مبنی پالیسیاں معاشرتی بے چینی اور پْرتشدد رویوں کو ہوا دینے کا سبب بنتی ہیں۔ بلوچستان کی گیس، جو 1954ء سے پورے ملک کی صنعتی ضروریات اور گھریلو استعمال کے لیے ریڑھ کی ہڈی بنی ہوئی ہے، خود بلوچستان کے عوام کے لیے ناپید ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں پورا ملک اس قدرتی وسیلے سے مستفید ہورہا ہے، وہاں ڈیرہ بگٹی جہاں سے گیس نکلتی ہے، اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ تک اس سے محروم ہیں۔ یہ صورتِ حال بلوچ عوام کے لیے گہری مایوسی اور غصے کا باعث کیوں نہ ہو؟ بلوچ عوام کا یہ مطالبہ درست ہے کہ انہیں ان کے وسائل میں منصفانہ حصہ ملے اور ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ پھر ایسی صورتِ حال کا فائدہ ملک دشمن اٹھاتے ہیں، وہ ان کو اکساتے ہیں، اور آپ کا ظلم اور نفرت کا رویہ انہیں سخت ردعمل دینے کے لیے مہمیز دیتا ہے۔ اس بدترین صورتِ حال میں دہشت گردی کو صرف طاقت کے بل بوتے پر قابو نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان کا مسئلہ بنیادی طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے، جسے صرف سیاسی ذرائع سے حل کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے بعض حلقے اسے صرف چند گمراہ عناصر کی شورش قرار دے کر فوجی کارروائیوں پر انحصار کرتے ہیں، جو کہ سراسر ناکام حکمت ِ عملی ہے۔ بلوچستان کے عوام کے مسائل کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور اْن کے وسائل پر اْن کا حق تسلیم کرتے ہوئے ترقی کے مواقع فراہم کرنے ہوں گے۔ عالمی طاقتیں بلوچستان کے حالات کا فائدہ اٹھاکر اپنے مفادات کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا بلوچستان میں سرگرم ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ بیرونی عناصر بلوچستان کے علٰیحدگی پسند گروہوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بلوچستان کی آزادی کے نعروں کا بلند ہونا محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک جامع حکمت ِ عملی مرتب کرے جس میں حقیقی مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے اور عوام کو انصاف، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔