کراچی (رپورٹ: سید وزیر علی قادری) دنیا بھر میں اس وقت مسلمان جس کرب و اذیت میں مبتلا ہیں اس میں بھارت میں بسنے والے بھی شامل ہیں، لیکن دیگر ممالک اور بھارت میں بسنے والے مسلمان ایک جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں، بھارت میں تقریباً 25 کروڑ مسلم نفوس آباد ہیں، یہ ہی طاقت مودی سرکار کے سامنے چٹان بن کر کھڑی ہے اور مظالم ڈھانے کے باوجود وہاں کے بسنے والے مسلمانوں کا کوئی بہت زیادہ نقصان نہیں کرپائے۔ اس صورتحال کے تناظر میں جسارت نے مقتدر شخصیات سے سوال کیا کہ ’’بھارت کے 25 کروڑ مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے ؟‘‘ جن رائے دہندگان نے قیمتی جواب سے نوازا ان میں سیف الدین ایڈووکیٹ، پروفیسر اسحق منصوری، ڈاکٹر شہزاد چنا، فاروق عادل، میر حسین علی
امام، مسرور احمد مسرور اور شگفتہ یوسف شامل ہیں۔ سیف الدین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ مسلمان اس وقت بھارت کے اندر بٹے ہوئے ہیں، ان کے بے شمار مسائل ہیں جس کے نتیجے میں ایک مسئلہ یہ پیش ا ٓرہا ہے کہ کوئی ان کی متفقہ سیاسی قوت موجود نہیں ہے، ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ بھارت کے مسلمان اپنی سیاسی قوت کو مجتمع کریں، 25 سے 30 کروڑ مسلمان بھارت میں ہیں بے شک وہ ہندوؤں کے مقابلے میں قلیل ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہاں ان کی ایک بھرپور سیاسی حیثیت ہونی چاہیے، اگر مسلمان کسی ایک جھنڈے تلے متحد اور متفق ہو جائیں تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ آنے والی تمام حکومتیں یا جو سیاسی پارٹیاں ہیں وہ مسلمانوں کے مفادات کا خیال رکھیں گی۔ مسلمانوں کو یہ بات کبھی بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اسلام غالب ہونے کیلیے آیاہے اور یہ بات بھارت کے مسلمانوں کو سینہ بہ سینہ اپنے بچوں تک بھی پہنچانی چاہیے اور یہ چیز سب سے بہترین طریقے پر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی جتنی بھی کتابیں ہیں وہ یہ بات بتاتی ہیں کہ دین جو ہے غالب ہونے کیلیے آیا ہے اور نافذ ہونے کیلیے آیا ہے چاہے وہ دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو چاہے وہ بھارت ہو پاکستان ہو کوئی بھی دنیا کا ملک ہو اور مسلمانوں نے ایک بڑے طوعل عرصے تک بھارت پر حکومت بھی کی ہے اس وقت بھی مسلمان اقلیت میں تھے اور ہندو اکثریت میں تھے لیکن اس وقت ہندو بڑے آرام سے زندگی گزارتے تھے۔ آج مسلمان تکلیف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہندو حکومت کے ماتحت تو بہرحال مسلمانوں کو یہ چیز ہمیشہ میں ذہن میں رکھنی پڑے گی اور بالخصوص بھارتی مسلمانوں کو کہ بالاخر ان کا مستقبل بھارت پر ایک نہ ایک زمانے میں اللہ تبارک و تعالی کی حکمرانی ہے اور آخری بات یہ کہ بھارت کے 25 کروڑ مسلمان ہیں ان کا مستقبل روشن ہے اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کو کسی ایک جگہ ہونا یہ تو بہت بڑی قوت ہے اور مسلمانوں کا مستقبل انشاء اللہ تعالی روشن ہوگا۔ وہاں پر جماعت اسلامی کام کر رہی ہے دوسری تحریک کام کر رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بے شک اس وقت وقتی طور پر مشکلات ہیں مسائل ہیں اور یہ چونکہ مودی صاحب کی حکومت ہے اور مودی ووٹ لینے کی خاطر انتہاپسندی کی طرف گامزن ہے ۔ بہرحال وہ اپنی جگہ ہے اور وقتی طور پر حالات اس طرح کے آتے جاتے رہتے ہیں لیکن بھارتی مسلمانوں کا مستقبل اتحاد کے ذریعے روشن ہے لیکن جو بھارتی مسلمان ہیں اگر انہوں نے اپنے اپ کو ہندو حکومتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو پھر ظاہر ہے کہ ان کا کوئی بھی مستقبل نہیں ہے بھارتی مسلمانوں کو اپنے مستقبل کی خود فکر کرنی پڑے گی اپنی معیشت کی اپنی تعلیم، اپنے بچوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھانا پڑے گا، یہ بڑی اہم ترین چیزیں ہیں جس کا مسلمانوں کو مشترکہ طور پر وہاں سوچنا پڑے گا لیکن اگر مسلمانوں نے ان چیزوں پر توجہ نہ دی اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دی تربیت پر توجہ نہ دی تو ظاہر ہے کہ پھر اس صورت میں مسلمان ایک دوسرے درجے کی شہری بن کر رہیں گے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری نے کہا کہ بھارت کے 25 کروڑ مسلمانوں کا مستقبل انشاء اللہ بہت ہی روشن ہے مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اب پاکستان کے صحافی دانشور ادیب اور شاعر اور سیاست دان اور مذہبی رہنما بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں سوچنے لگے ہیں، بھارت کے مسلمان پاکستان کی تعمیر و تشکیل اور پاکستان کو وجود میں لانے کیلیے پاکستانیوں سے زیادہ قربانیاں پاکستان بننے سے پہلے بھی اور پاکستان بننے کے بعد بھی دیتے رہے ہیں، وہ بھارت کے بہترین شہری ہونے کے باوجود آج تک اسی شناخت سے پہچانے جا رہے ہیں کہ تم تو پاکستانی ہو اور مجھے ذاتی طور پہ بے شمار بھارت کے مسلمانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے، بھارت سے پوری محبت کے باوجود وہ پاکستان سے بھی محبت کرتے ہیں دراصل اب دنیا کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں دنیا قوم، پرستی فرقہ پرستی، مذہب پرستی، علاقہ پرستی، زبان پرستی اور ہر قسم کے بتوں سے بیزار ہو کر اب ایک انصاف پر مبنی عالمگیر نظام کی تلاش میں ہے، اور یہ نظام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو آج سے 1400 سال پہلے دیا تھا اور دنیا اس نظام کی برکتوں سے رحمتوں سے عدل و انصاف سے آج بھی فیضیاب ہو رہی ہے۔ بھارت کے مسلمان بھارت کو عدل و انصاف کا پیغام دے رہے ہیں اس معاشرے میں کہ جہاں دولت مند اور غریب، برہمن اور اچھوت کے درمیان امتیازات کی بہت بڑی بڑی دیواریں کھڑی کر دی گئی ہیں ان کے درمیان مسلمان مساوات کا درس دے رہے ہیں، عدل و انصاف کا درس دے رہے ہیں اور مسلمان اس پیغام کو پہنچانے میں جب اپنا فرض ادا کریں گے تو انشاء اللہ بھارت کے انسان خواہ وہ ہندو ہوں اچھوت ہوں برہمن ہوں عیسائی ہوں سکھ ہوں یہودی ہوں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں وہ تمام کے تمام انسان اس عدل و انصاف سے فیضیاب ہوں گے اور اس طرح سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بشارت پوری ہوگی کہ مجھے بھارت سے خوشبو ارہی ہے میں بھارت سے ایک خوشبو محسوس کرتا ہوں تو وہ خوشبو ایمان کی خوشبو ہے وہ خوشبو اسلام کی خوشبو ہے اور انشاء اللہ بھارت کے اندر اسلام کے نتیجے میں امن و امان بھی ہوگا ترقی بھی ہوگی عدل و انصاف بھی ہوگا۔ مر کی ہے کہ بھارت کے مسلمان باہم متحد ہوکر ہندوؤں کی چالبازیوں کا مقابلہ کریں اور بہادری ، ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ بھارت کے مسلم رہنما اس وقت بھی اگر خواب خرگوش سے نہ جاگے تو مستقبل میں ان کے وجود کو بڑا خطرا لاحق ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد چنا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات کو اگر دیکھا جائے تو بھارت کے 25 کروڑ مسلمانوں کا مستقبل انتہائی پریشان کن اور دگرگوں ہے۔ بھارت میں ہندوتوا کی فسطائیت اور بی جے پی کی مسلم کش پالیسیوں کی بنا پر اس وقت مسلمان تکلیف دہ مراحل سے گزر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے باہم متحد نہ ہونے اور ہندوؤں کی شاطرانہ چالبازیوں کی وجہ سے مسلمان مشکل حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو ایک طرف اپنی عبادات اور اسلامی شعائر کی ادائیگی میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری طرف عدل کے دہرے معیار کی بنا پر انصاف نہیں مل پارہا۔ اگرچہ بھارت خود کو سیکولر ریاست کا دعویٰ کرتا ہے، مگر دنیا کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ معاندانہ اور ظالمانہ ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کے مسلمان باہم متحد ہوکر ہندوؤں کی چالبازیوں کا مقابلہ کریں اور بہادری ، ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ بھارت کے مسلم رہنما اس وقت بھی اگر خواب خرگوش سے نہ جاگے تو مستقبل میں ان کے وجود کو بڑا خطرا لاحق ہوسکتا ہے۔ بھارت کے مسلمان اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اور دیگر اسلامی ملکوں کی مدد سے ہندؤوں اور ان کے حکمرانوں کی مسلم کش پالیسیوں کو ختم کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں بھارت کے مسلم نوجوان جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع سے اپنی کمیونٹی کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انتہائی مایوس کن حالات کو تبدیل کرنے کے لیے مسلم حکمرانوں کو بھارت کے مسلمانوں کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔ فاروق عادل کا کہنا تھا کہ بھارت کے مسلمانوں کا مستقبل سمجھنا ہو تو اس کیلیے ضروری ہے کہ مولانا ابوالکلام ازاد کی ‘انڈیا ون فریڈم ” پڑھ لی جائے۔ اچھا ویسے تو جو بھی اس کا نسخہ ملے اردو میں پڑھیں انگریزی میں پڑھیے ٹھیک ہے لیکن جو اس کا ترجمہ مولانا غلام رسول مہر نے کیا ہے اور اس کے بعد جو بعد میں کوئی 80، 90 کی دہائی میں پھر وہ جو باقی باتیں 30 ،40 صفحات اس میں اضافہ کیے گئے ہیں اس کو مولانا غلام رسول کے بیٹے نے اسے اپ ڈیٹ کر دیا ہے۔ دراصل ہندو بڑے تنگ نظر لوگ ہیں اور اتنے تنگ نظر ہیں کہ وہ اپنے مستقبل کو بھی تاریک کر دیتے ہیں اس میں یعنی ابھی جو حالیہ انتخابات ہوئے ہیں اس میں بھارت کا جو سیکولر ائین ہے وہ خطرے میں پڑ گیا اور یہ ایک حقیقت تھی کہ سیکولر ائین خطرے میں پڑ گیا تھا۔ اگرچہ مودی صاحب وزیراعظم بن گئے لیکن پہلے جیسی طاقت ان کی نہیں ہے۔ کہنا یہ ہے کہ ہندو تمام صورتحال کے باوجود وہ کسی دوسری اقلیت کو گنجائش دینے کو تیار نہیں ہیں مسلمان ہونا وہاں بڑا مشکل ہے اور اگرچہ مسلمان بڑی طاقت سے اپنے وجود کو منواتے بھی ہیں یعنی پولیٹیکل طاقت کی بات کو منواتے بھی ہیں اور اپنے حقوق کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود جو ان کی یہ جدوجہد اپنے وجود کو منوانے کی اور اپنی سیاسی حقوق کے تحفظ کیلیے ہے، اس کو ہندو انتہا پسند ایک نئے پاکستان کی جدوجہد قرار دیتے ہیں۔ بھارت میں بہت ساری مساجد گرادی گئیں، بہت ساری غیر محفوظ ہیں ابھی گزشتہ دنوں میرا سعودی عرب جانا ہوا تو ائرپورٹ پر کرناٹک کے رہائشی ایک صاحب بتارہے تھے کہ اگر مودی جی کے ووٹ اتنے کم نہ ہوتے تو کرناٹک کی بھی ایک تاریخی مسجد ہے وہ بھی اب تک شہید کی جاچکی ہوتی تو یہ صورتحال ہے، اور یہی مستقبل ہے جومسلسل جدوجہدکا متقاضی ہے۔ میر حسین علی امام نے اپنی قیمتی رائے دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں سیکولر حکومت ہونے کے باوجود ہندوتوا کی مہم جاری ہے شدت پسند انتہا پسند ہندو مسلمانوں کی نسل کشی چاہتے ہیںان کی املاک جان و مال کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ امریکا یورپ یا شرق اوسط میں مقیم بھارتی مسلمانوں کی کثیر آمدنی کی وجہ سے یا چند کانگریس کے لیڈروں کی وجہ سے معاملہ چل رہا ہے ۔ پاکستان کے اندرون خانہ کمزوری سے بھارت کے مسلمان مزید کمزور ہوگئے ہیں۔جب تک پاکستان طاقتور تھا اس کی مالی پوزیشن بہتر تھی ہندو حکومت ڈرتی تھی پاکستان کی معاشی کمزوری اور بدعنوان حکمرانوں کی وجہ سے بھارت حکومت مضبوط ہوگئی اور بھارت کے مسلمان کو مزید دباؤ میں رکھنا شروع کردیا۔ ہمیں چاہیے ملک میں مستحکم اسلامی حکومت قائم کریں جس سے بھارت برابر کا سمجھے تب وہ خطے کی بادشاہی کا خواب نکالے گا اور اپنی عوام کے ساتھ بھی انسانیت کا سلوک کرے گا ورنہ غیر انسانی مظالم کرے گا۔ مسرور احمد مسرور کا کہنا تھا کہ اگرچہ کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی دنیا کی بڑی مسلم آبادیوں میں شامل مانی جاتی ہے لیکن بھارت میں مسلمانوں کی اتنی اکثریت ہونے کے باوجود مسلمانوں کو بڑے مسائل کا سامنا ہے بھارت میں مسلمانوں کوسب سے بڑی اقلیت تسلیم کیا جاتا ہے لیکن انہیں ہر طرح سے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے وہ چاہے تعلیم کا شعبہ ہو یا سیاست اور روزگار کا شعبہ ہو۔ مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا جاتا ہے، ایسی صورت حال میں اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا اسکتا ہے کہ وہاں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے۔ بہرحال بھارت کے مسلمان اپنے مذہبی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں یہ ان کی بڑی ہمت ہے سیاست کے میدان میں مسلمانوں کے ووٹوں کی اہمیت ہوتے ہوئے۔ اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی مشکل سے 5 فیصد ہوپاتی ہے جب کہ یہ شرح اس سے کہیں زیادہ ہونی چاہیے تھی بھارت میں موجودہ حکمران ٹولہ 2014ء سے برسراقتدار ہے جس کی قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کر رہی ہے۔ اس جماعت نے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ایک گہری سیاسی خلیج پید اکردی ہے اور ہندو قومیت کو ہر شعبے میں مسلمانوں کے مقابلے میں بڑھاوا دینے کے ایجنڈے پر زور شور سے کام ہو رہا ہے اس کے برعکس مسلمانوں کے لئے ہر طرح کی مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے تیزی سے آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ امریکا کا کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی بھی اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اس معاملے میں بھارت کا رویہ تنزلی کی جانب گامزن ہے کیونکہ مسلمانوں کو وہ مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ بھارت کے مسلمانوں کو جب تک مذہبی آزادی کا ماحول نہیں فراہم کیا جاتا اس وقت تک بھارت کے مسلمان ترقی کی دوڑ میں آگے نہیں نکل سکتے اور ان کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا۔ شگفتہ یوسف نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں پر ہندو بلوائیوں کی طرف سے سرعام تشدد ایک معمول بن گیا ہے اور اسے برا بھی نہیں سمجھا جاتا حکومت کی طرف سے اسے روکنا تو درکنار کوئی مذمت بھی نہیں کی جاتی۔ اگست کے مہینے میں ان حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بی بی سی نیوز دلی کی ایک رپورٹ کے مطابق 3 سال سے مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے دستاویزی ثبوت جمع کرنے والے آزاد صحافی علی شان جعفری کا کہنا ہے ” تشدد کی انتہا کر دی گئی ہے اور یہ بہت عام ہو گیا ہے یہ تشدد ہر جگہ کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کو اب برا بھی نہیں سمجھا جاتا انہوں نے کہا کہ انہیں ہر روز 3 سے 4 وڈیوز تشدد کی موصول ہورہی ہیں” انڈین معاشرے میں مذہبی تقسیم کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن جب سے انتہا پسند ہندو جماعت سے تعلق رکھنے والے نریندر مودی حکومت میں آئے ہیں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد مزید بڑھ گیا ہے دہلی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر تنویر اعجاز کا کہنا ہے کہ مذہبی تشدد کوئی نئی بات نہیں لیکن یہ اقتدار میں آنے والے کی حکمت عملی اور سیاسی ہتھکنڈوں کے ساتھ مزید بڑھ جاتا ہے۔ مودی کے پہلے دور اقتدار میں مسلمانوں پر گاؤ رکھشوں( گائے کی حفاظت کرنے والے) کی طرف سے گائے کا گوشت کھانے کی افواہوں پر یا گائے اسمگل کرنے کے الزامات پر بہت سے حملے ہوئے۔ نریندر مودی نے ان حملوں پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔ کانگریس پارٹی کی ایک رکن حسیبہ امین نے کہا کہ ایسے واقعات ہمارے ملک میں صرف اور صرف غنڈوں کو ملنے والے تحفظ کی وجہ سے اتنے عام ہو گئے ہیں اوراب بھارت میں موب لنچنگ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ لوگوں کو تقسیم کر کے اقتدار پر قابض رہنے کا سب سے تازہ اور نیا ہتھیارموب لنچنگ( بھیڑ کا تشدد)ہی ہے۔ اس ہتھیار کی خطرناکی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ اس ہتھیار کو گئو رکھشا اور راشٹرواد کی بھٹی میں جھونک کر مزید نوکیلا بنایا جا رہا ہے۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا ہے۔ بلکہ منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا ہے۔ سازش اتنی گہری ہے کہ کب لوگ ہتھیار بن گئے انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوا۔ اور وہ لوگوں کو صرف شبہات کی بنیاد پر مار رہے ہیں۔ اس میں ہلاک وہ ہو رہے ہیں جنھیں ان کا قصور تک نہیں بتایا جا رہا۔ محض شبہات کی بنیادپر مارنے والے، قصور بتاتے بھی کہاں ہیں۔ بساہڑا گائوں کا اخلاق ہو، ٹرین میں سفر کرتا جنید ہو، الور کا پہلو خان ہو یا پھر اب محمد عمر۔ سب کے سب صرف شبہات کی بنیاد پر مارے گئے اور ان کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں تشدد کا یہ ہتھیار اب خوفناک شکل اختیار کر گیا ہے۔ اب ان کا ساتھ سرکاری مشنری بھی دے رہی ہے۔ میڈیا نے اسے ’موب لنچنگ‘ کہنا شروع کر دیا، جس کا اصل میں کوئی معنی ہوتا ہی نہیں، صرف اس لیے کہ دنیا کو صاف صاف پتہ نہ چل سکے کہ تشدد کے اس واقعہ کی وجہ کیا ہے؟ بھارت میں مسلمانوں پر2016میں ظلم ایک اور شکل میںاس طرح سامنے آیا کہ مشہور عالم دین ڈاکٹر ذاکر نائک جو بھارت میں پرامن انداز میں مسلمانوں کو تبلیغ اسلام کر رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ہندوازم کی تبلیغ انہی کی کتاب “گیتا” سے کر رہے تھے جس سے ہندو ان سے متاثر ہونے لگے تو تنگ نظر حکومت نے ان پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں بھارت چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ڈاکٹر ذاکر نائیک جو اتنی مثبت سوچ رکھتے ہیں پھر اسے اپنی ہجرت قرار دیتے ہیں۔ بہرحال اقلیتوں کے ساتھ برے سلوک میں بھارت سب سے اگے ہے وہ چاہے مسلمان ہوں یا عیسائی ہوں یا کوئی اور اقلیت۔بھارت میں اقلیتوں کا کوئی روشن مستقبل نہیں۔ غرض بھارت میں 25کروڑ مسلمانوں کا مستقبل جب ہی محفوظ رہ سکتا ہے جب عالم اسلام ان کی ہر لحاظ سے معاونت کرے اور ان پر آئے دن ڈھائے جانے والے مظالم کو بین الاقوامی سطح اور فورم پر اٹھایا جائے۔